بہلائیں نہیں کچھ کریں

202

نئے پاکستان میں تبدیلی کے نام پر کوئی خاص فرق تو اب تک سامنے نہیں آیا البتہ نئی نئی منطقیں سامنے آ رہی ہیں یا پھر یوٹرن پر یوٹرن نے دل و دماغ کو ضرور چکرا کر رکھ دیا ہے۔ مثلاً کہا گیا کہ وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، ایوان ہائے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کے محلات میں صدر کا، وزیراعظم کا، وزرائے اعلیٰ کا اور گورنرز کا ڈیرہ حرام ہوگا لیکن چند ہی دنوں میں ان دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی ساری یوتھ ان کے ساتھ ہے سو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زیادہ مایوسی کا سامنا قوم یوتھ یا بالفاظ دیگر پی ٹی آئی کو ہوا لیکن وہ افسردگی کے باوجود اس لیے خاموش ہیں کہ اگر قمیص اٹھائی گئی تو پیٹ اپنے ہی کسی بھائی کا ننگا ہوگا۔
قرض نہ لینے بلکہ اس حد تک مجبور ہوجانے پر کہ قرض لینا ہی پڑ جائے تو خود کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاک کرنے کی باتیں کرنے والے ملکوں ملکوں کشکول پھیلائے نظر آرہے ہیں۔ اشیا سستی کرنے کے دعویدار مہنگائی کو آسمان کی بلندی تک لے گئے ہیں۔ ڈالر بے قدر ہونے کے بجائے روپیہ ملیا میٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس پر نمک پاشی یہ کہ یوٹرن یعنی وعدہ خلافیوں کو اعلیٰ حکمت عملی قرار دیا جارہا ہے۔
بات اگر یوٹرن اچھے ہوتے ہیں پر ہی ختم ہوجاتی تو صبر آ جاتا لیکن کسی کا وعدوں سے پھر جانا شاید اتنا اذیت کا سبب نہ ہو لیکن اچھے خاصے سمجھدار لوگ اگر بے جا طرفداری پر اتر آئیں تو اس کی کسک بہت شدید ہوتی ہے۔ اب اسی بات کو لے لیں کہ باتیں ہوں مرغی کے انڈوں، چوزوں، ٹیکوں اور مرغیوں کی اور یوتھیے اس کے لیے مثالیں بل گیٹ کی دینے بیٹھ جائیں تو ایک سر ہی تو رہ جاتا ہے جس کو جتنا چاہے پیٹا جاسکتا ہے۔ جس بڑے منہ سے لوگ یہ سننے کے متمنی ہوں کہ پاکستان اسٹیل کو کس طرح منفعت بخش ادارہ بنایا جائے گا، واپڈا کے لیے کیا کیا انقلابی قدم اٹھائے جائیں گے، پی آئی اے دنیا کی بہترین ایر لائن کیسے بنائی جاسکتی ہے، پاکستان ریلوے دنیا کی سب سے بہترین ریلوے بن جائے گی، بیمار ملیں اور کارخانے تندرست و توانا کر دیے جائیں گے، 50 لاکھ گھر بے گھر افراد کے حوالے جلد کر دیے جائیں گے، کروڑوں ملازمتوں کے دروازے آج سے کھول دیے گئے ہیں، غیر ملکی سرمایہ دار سرمایہ کاری کے لیے آنا شروع ہو چکے ہیں، اشیائے ضروریہ قوت خرید میں آچکی ہیں، ٹیکسوں کا بوجھ ہر عام و خاص کے سروں سے اٹھایا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس اگر وہ معاشی پلان یہ دے رہا ہو کہ مرغیاں پالو، انڈے بیچو، کٹوں کو کڑیل جوان بننے دو اور بچھڑوں کو موٹا کرو، کیا یہ قوم کی امیدوں اور آرزوؤں کا خون کرنے کے مترادف نہیں ہو گا؟۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پولٹری فارمنگ ایک منفعت بخش کاروبار ہے لیکن یہ کوئی مکمل معاشی حل نہیں اور نہ ہی یہ طوفانی انداز میں شروع کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے بھی گھر نہیں بلکہ بڑے بڑے فارم ہاؤس کی ضرورت ہوگی۔ گاؤں دیہاتوں میں تو تقریباً ہر گھر میں مرغے مرغیاں ہوتے ہی ہیں لیکن اس کو اس حد تک وسعت دینا کہ یہ ملک کے معاشی استحکام کے لیے سود مند بن جائے، بغیر بڑے بڑے فارم ہاؤس کے ممکن نہیں۔ کیا حکومت اس کے لیے زمینیں، مراعاتیں، قرضے اور سہولتیں دینے کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی رکھتی ہے؟۔ اگر ایسا ہے تو مستقبل میں بے شک اس کے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں لیکن اگر انفرادی سطح پر ایسا کرنے کی سوچ ہے تو پھر ساون کے اندھے کو ہرا ہرا دکھائی دینے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔
بات ہو رہی ہے کٹوں اور بچھڑوں کو کڑیل جوان کر کے فروخت کرنے کی تو اس میں وزن تو ضرور ہے لیکن عملاً ایسا ممکن نظر نہیں آتا اس لیے کہ جو گھر یا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والا ایسا کرے گا اس کے پاس گنجائش کم پڑجائی گی۔ ظاہر ہے ایسا کرنے کے دوران جانوروں کی تعدا میں اضافہ ضرور ہوگا جس کی وجہ سے اس کا گھر یا چھوٹا سا فارم چھوٹا پڑجائے گا۔ ایسی صورت میں حکومت اس کی کیا مدد کرسکتی ہے؟، کیا اس بات کی منصوبہ بندی بھی کر لی گئی ہے؟۔
جانور کو بہت عمر کا کرنے میں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ مارکیٹ میں گوشت کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جب مارکیٹ میں جانور میسر ہی نہیں ہوگا تو اس کی طلب رسد سے بہت بڑھ جائے گی اور یوں قیمت خرید میں اضافہ ہونے کا احتمال بڑھ جائے گا جو عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن جائے گا۔ ایسا سب کچھ کرنے کے بجائے مویشیوں کی افزائش کو بڑھایا جائے، فارم ہاؤس بڑھائے جائیں اور اس کے لیے زمینیں اور مراعات اور قرضے فراہم کیے جائیں تو شاید کچھ بات بن جائے۔
کراچی تا گلگت اعلیٰ واش روموں کی تعمیر، انڈے، مرغی، بچھڑے اور کٹے کی تجاویز شاید قابل برداشت ہو بھی جاتیں لیکن ان پر لفافہ صحافیوں کی زمین و آسمان کی قلابیں اور قوم یوتھ کی رطب السانیاں دماغ کو لسی بنائے دے رہی ہیں۔ یہ بھی کوئی ایسی منطقیں ہیں جن کی ایسی ایسی تشریحات و توجیہات پیش کی جائیں کہ سننے والے کے دماغ کی رگیں پھولنے لگیں۔ تھوڑی دیر کے لیے ان ساری منطقوں کو پاکستان کے معاشی حالات کی درستی کا حل مان بھی لیا جائے تب بھی ان ساری تجاویز کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کیا موجودہ حکومت ان منصوبوں کو قابل عمل بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے یا حسب سابق تجاویز پیش کرنے کے بعد سب کچھ قوم پر چھوڑ رہی ہے کہ اب اس سے آگے کی راہوں کا تعین وہ خود کرے۔
موجودہ حکومت پر فرض ہوگیا ہے کہ اب وہ پاکستان کے لیے کچھ نیا کریں نئی نئی منطقیں پیش نہ کریں۔ لوگوں کی مشکلات کم کریں، اضافہ نہ کریں، قیمتوں کو مستحکم بنائیں، عدم استحکام سرمایہ کاروں میں بے چینی کا باعث ہوگا، ملیں لگائیں، کارکانے تعمیر کریں، ہر شے کی قیمتوں کمی کریں، ملازمت کے مواقعوں میں اضافہ کریں۔ توڑ پھوڑ بہت ہوچکی، اب تعمیر پر توجہ دیں، لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی ترک کرکے مرہم رکھیں، ان سے چھوٹے چھوٹے روزگار مت چھینیں۔ گھروں کو مسمار کرکے اور ان کی زندگی عذاب بنا کر ان کی آہیں اور بددعائیں نہ لیں اس لیے کہ مظلوموں کی آہیں فرش سے بلند ہوکر عرش الٰہی کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔