متحدہ کی بحالی کے آثار

197

کراچی تجاوزات آپریشن کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پردے اُٹھنے لگے ہیں ، چند روز قبل کی خبر ہے کہ انسداد تجاوزات آپریشن کرنے والوں نے بسمہ اللہ ہوٹل سے بڑا بورڈ تک اور ناظم آباد پہلی چورنگی سے جہانگیرآباد تک دُکانداروں سے سوا کروڑ روپے تک بھتے کا مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر رقم نہیں پہنچائی تو اس علاقے کی دُکانوں پر نشان لگا دیں گے پھر کسی بھی وقت انسداد تجاوزات کا عملہ میدان میں آکر توڑ پھوڑشروع کر دے گا ۔ میونسپل کمشنر کے عملے کے نام پر متحدہ کے کارکنان دُکانداروں کو پیغام دے گئے ہیں کہ بسمہ اللہ ہوٹل سے بڑا بورڈ تک جتنی بھی دُکانیں ہیں وہ سب مل کر 85 لاکھ روپے اور ناظم آباد سے جہانگیر آباد تک کے دُکاندار35 لاکھ روپے دیں اور دُکاندار اپنی عمر بھر کی پونجی بچانے کے لیے چندے کر رہے ہیں ۔ شاید چیف جسٹس کے علم میں یہ بھی نہیں آیا ہو کہ ان کے احکامات کے ساتھ یہ کام ہو رہا ہے جب تک ان کے نوٹس میں آئے گا کام ہو چکا ہو گا ۔ لیکن بات صرف ان چند دُکانوں کی نہیں ہے ۔ کراچی بہت بڑا ہے پورے کراچی میں کہاں کیا ہوا کسی کو نہیں پتا ۔ بس دُکانداروں سے پوچھیں تو پتا چلتا ہے کہ کس سے کتنا بھتہ لیا گیا ۔ خرابی صرف اس معاملے میں ہوتی تو شاید روپیٹ کر خاموش ہو سکتے تھے لیکن آثار نظر آ رہے ہیں کہ بھتہ مافیا ایم کیو ایم ایک بار پھر منظم ہو رہی ہے ۔ بھتے کی پرچیوں کی رپورٹس پہلے بھی آ رہی تھیں لیکن تجاوزات آپریشن نے اس سلسلے کو تیز کر دیا ہے اسی طرح ایک اطلاع یہ ہے کہ اسی ہفتے متحدہ کی میڈیکل ایڈ کمیٹی بحال ہو گئی ہے ۔ یہ کمیٹی استپالوں میں فنڈز کی خرد برد ، گھوسٹ ملازمین کے تقرر،تبادلے وغیرہ کا نظام چلانے اور اعتراض کرنے والوں کو ٹھیک کرنے یا ٹھکانے لگانے میں بدنام تھی ۔ا گر چیف جسٹس کی ناک کے نیچے یہی سب کچھ ہوناتھا تو انہیں مقدمات زیر التواء چھوڑ کر دودھ ، پانی ، تجاوزات اور پارکنگ وغیرہ کے معاملات میں نہیں کودنا چاہیے تھا ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پورے کراچی میں آج کل ملبہ پھیلا ہوا ہے اور کشادگی اور سڑکوں سے رکاوٹیں دور کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا وہ غت ربود ہو گیا ۔حالت یہ ہے کہ ملبہ سڑک پر ہے لوگوں کو گاڑیاں کھڑی کرنا اور گزارنا مشکل ہے ۔ دُکانداروں نے ملبے کو ہٹا کران ہی جگہوں پر پھر کاروبار شروع کر دیا ہے جہاں پہلے کر رہے تھے ۔ صدر میں یہی ہو رہا ہے ۔ برنس روڈ پر یہی ہور ہا ہے ۔ گلشن اقبال میں جہاں حلوے پراٹھے بند کرنے کی دھمکی دی گئی تھی وہاں غریب کے ٹھیلے اور بھتے نہ دینے والوں کی دُکانیں تو ہٹا دی گئیں لیکن رہائشی فلیٹوں کے برآمدوں میں موجود بڑے اور طاقتور لوگوں کے سجی والے ہوٹل پوری آب و تاب کے ساتھ کھلے ہوئے ہیں۔ شام ہوتے ہی فٹ پاتھ پر تخت بچھا دیے جاتے ہیں ایک جانب گاڑیاں کھڑی ہو جاتی ہیں ،بیروں کی چہل پہل کے سبب وہاں سے گاڑیاں گزارنامشکل ہوتا ہے ۔ ان دُکانوں نے پورے فٹ پاتھ پر قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ سلسلہ نیپا چورنگی تک ہے۔تمام طاقتور لوگ یا جس جس نے بھتہ دے دیا ہے اسی طرح کام کر رہے ہیں ٹریفک کی روانی اسی طرح متاثر ہے سروس روڈ فوڈ اسٹریٹ بنی ہوئی ہے ۔ گلستان جوہر چوک پر واقع چائے کے ہوٹل حلوے پراٹھے والے بلدیہ کے ملبے کو سڑک پر پھینک کر صبح شام اسی طرح کام کر رہے ہیں ان کی سہولت کے لیے سامنے واقع کنٹونمنٹ بورڈ کا دفتر اور پارک ہے جہاں ان دُکانوں کی چائے کی میزیں اور کرسیاں محفوظ کی جاتی ہیں ، مسئلہ دُکانیں کھولنے کا نہیں ہے یہ سب بد معاشی کے ساتھ راستے بند کر کے کاروبار کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب توجہ فرمائیں۔۔۔راستے اسی طرح تنگ ہیں ۔ مزار قائد سے صدر آنے والے راستے میں جو ٹھیلے والے تھے ان کو ہٹا دیا گیا ہے راستہ کھلا محسوس ہوتا ہے لیکن ایمپریس مارکیٹ کے تینوں اطراف ٹریفک اسی طرح پھنس کر چل رہا ہے ۔ ٹھیلے ، بسیں ، رکشے سب کھڑے رہتے ہیں ۔ پرانے گھسیٹا خان حلیم کی طرف اور قلفی والوں کی وجہ سے سڑک بند رہتی ہے ۔دُکانداروں کومتبادل جگہ نہیں ملی اور طاقتوروں کو کچھ بھی نہیں کہا گیا۔پورا شہر ملبہ بنا ہوا ہے ۔ دو چار مقامات سے نمائشی طور پر ملبہ اٹھایا گیا ہے ۔ پورے آپریشن میں ہزاروں دُکاندار بیروز گار ہو گئے ۔ سڑکوں پر اسی طرح رش ہے وزیر اعلیٰ جس سڑک سے گاڑیوں کو ہٹوانا چاہتے تھے آج بھی وہاں گاڑیوں کے شو روم والے اسی طرح فٹ پاتھ اور خالد بن ولید روڈ بلاک کیے بیٹھے ہیں اور اعتراض کرنے والوں کو مارنے دوڑتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے تین مرتبہ نوٹس لیا، پویس لگائی لیکن وہ بھی یہاں ناکام ہیں ۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کہتے ہیں کہ ریاست کی رٹ قائم کریں گے ۔ کیا یہی ریاستی رٹ ہے ۔