16 دسمبر 1971ء: ایک میدان کا منظر:
میدان کے عین درمیان میں لکڑی کی سادہ سی میز رکھی ہے، جس کے دونوں طرف بھارتی فوج اور سپاہی الگ الگ قطار میں کھڑے ہیں۔ میز کے گرد پہلے جنرل اروڑا بیٹھتے ہیں، ان کے برابر جنرل نیازی بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے ذلت آمیز لمحہ ہے، مسودہ میز پر رکھا ہے، جنرل نیازی کا ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور ان کا قلم مسودے پر اپنے دستخط ثبت کردیتا ہے۔ پاکستان کا پرچم سرزمین ڈھاکا میں سرنگوں ہوجاتا ہے۔ جنرل نیازی اپنا ریوالور کھولتے ہیں اور گولیوں سے خالی کرکے جنرل اروڑا کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سر عام اتارے جاتے ہیں۔ ہجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوتی ہے۔ جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف بڑھتے ہیں جس کا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کررکھا ہے۔ قصاب، بھیڑیے اور قاتل کا شور اٹھتا ہے۔ جنرل نیازی اپنی گاڑی میں بیٹھنے والے ہیں، ایک آدمی محاصرہ توڑ کر آگے بڑھتا ہے اور ان کے سر پر جوتا کھینچ کر مارتا ہے۔ ہائے یہ رسوائی، یہ بے بسی اور یہ بے چارگی، یہ ذلت اور یہ ہزیمت، ہماری تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ (سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکا تک)
ہتھیار ڈالنے کے اس موقع پرجب جنرل جے ایف آر جیکب نے جنرل نیازی کے پستول کا معائنہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی کی پستول کا بیلٹ بوسیدہ تھا، جبکہ پستول مٹی سے بھری پڑی تھی کہ جیسے اس سے گولی چلانا تو ایک طرف کبھی استعمال تک نہ کیا ہو۔
میدان کے عین درمیان میں میز آج بھی رکھی ہے۔ ذلت ورسوائی کا سامنا آج بھی ہے۔ ہمارے پستول آج بھی گولی چلانا بھول گئے ہیں، ہمارا اسلحہ آج بھی گرد آلود ہے۔ ڈھاکا کے بعد نوحے آج بھی بلند ہیں، کشمیر میں سانحے آج بھی
جنم لے رہے ہیں۔ اہل کشمیر پہلے دن سے ان کے نشانے پر ہیں۔ لاکھوں عورتوں نے بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ لی ہے، ہزاروں نوجوان بھارتی عقوبت خانوں میں گل سڑ رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کشمیریوں پر آتش وآہن کی بارش کی جارہی ہے۔ ہماری بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں بھارتی درندے آج بھی پامال کررہے ہیں۔ اپنی تار تار عزتیں لیے و ہ آج بھی سرحد کے اس پار اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی منتظر ہیں۔ لیکن ہم۔۔۔ آج بھی ہم ان مسودوں کو پڑھ رہے ہیں، ان پر دستخط کررہے ہیں جو دشمنوں نے لکھ کرہمارے ہاتھوں میں تھما دیے ہیں۔ ’’انڈیا سے جنگ پاگل پن ہے‘‘۔ ’’کشمیر کے لیے جنگ آپشن نہیں ہے‘‘۔ ’’کشمیر کے مسئلے کا مذاکرات کے سوا کوئی حل نہیں‘‘۔ ’’بھارت کے ساتھ نارملائزیشن ہی خطے کے امن کے لیے ضروری ہے‘‘۔
ہندو آزادی کے پہلے دن سے پاکستان اور مسلمانوں کے درپے ہیں۔ وہ ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ خطے کے مسلمانوں کو وہ زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسرائیل کے طریقے پر وہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ جس بڑی تعداد میں کشمیریوں کو شہید کیا جارہا ہے بیس پچیس برس گزریں گے نہ کشمیری رہیں گے اور نہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے۔ ہفتہ 15دسمبر 2018 کو بھارتی فوج نے ضلع پلوامہ میں بدترین درندگی کامظاہرہ کرتے ہوئے 20 کے قریب کشمیریوں کو شہید اور 200 کو زخمی کردیا۔ نہتے اور پتھراؤ کرنے والے کشمیریوں کو گولیوں سے چھلنی کردو بھارتی آرمی چیف جنرل پبن راوت کی یہی درندگی اس کی جنگی حکمت عملی ہے۔ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی فوجیں آئے روز بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کررہی ہیں۔ کشمیر میں جو بدترین صورتحال ہے اس سے آدھی صورتحال پر بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنادیا تھا۔ لیکن ہماری غیرت کا یہ حال ہے کہ بھارت سے قرض چکانا ہمارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں۔ خوف پر مبنی دلیلیں صحیفہ آسمانی کی طرح سنائی جاتی ہیں۔ ’’جنگ تباہی ہے‘‘۔ ’’ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ نہیں ہوسکتی‘‘۔ ’’اگر ہم کشمیر میں عسکریت پسندوں کی امداد کریں گے تو دنیا میں تنہارہ جائیں گے‘‘۔ ’’پاکستان کمزور ہے اور بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکا کی مدد کے بغیر ہم کشمیریوں کی مدد نہیں کرسکتے‘‘۔ ’’بھارت روایتی ہتھیاروں میں ہم سے بہت آگے ہے‘‘۔
یہ دلائل نہیں فریب ہیں، حکمت نہیں فرار ہے۔ آج بھارت لاہور، کراچی یا اسلام آباد پر حملہ کردے تب آپ کو بین الاقوامی برادری کی پروا رہے گی، اس بات کا خیال رہے گا کہ بھارت روایتی ہتھیاروں میں ہم سے آگے ہے یا جوابی حملہ کرنے کے لیے امریکا کی مدد کا انتظارکیا جائے گا۔ یقیناًایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ فوج کا ایک ایک سپاہی اور قوم کا بچہ بچہ سیسہ پلائی دیوار بن جائے گا۔ جن جہادی گروہوں، غیور قبائل اور مجاہدین کو آج آپ اپنا دشمن سمجھتے ہیں آپ کے دست وبازو بن جائیں گے۔ ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے ہم کیوں ڈریں۔ بھارت نے ہمارے خلاف ایٹم بم استعمال کر بھی دیا تو دنیا سے مسلمانوں کا وجود ختم نہیں ہوجائے گا۔ دنیا میں مسلمان اور مسلم ممالک پھر بھی موجود رہیں گے لیکن اگر ہم نے بھارت کے خلاف بم استعمال کردیا تو ہندو رہیں گے اور نہ ہندو ریاست۔
وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں ’’بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات بھارت کرارہا ہے‘‘، افغانستان سے لے کر کشمیر تک بھارت ہمارے ساتھ حالت جنگ میں ہے لیکن ہماری قیادت بھارت کے ساتھ نارملائزیشن میں پناہ ڈھونڈ رہی ہے۔ پاک بھارت نارملائزیشن کے ذریعے امریکا بھارت کو خطے کی سپر پاور بنانا چاہتا ہے۔ ایک کمزور اور نام نہاد خود مختار کشمیر کا امریکی منصوبہ بھارت کو اس بات کی آزادی مہیا کردے گا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی زبردست مزاحمت کو کچلنے کے لیے لاکھوں افواج کی مدد کے بغیر ہی اپنا اثر رسوخ قائم رکھ سکے۔
جب کوئی قوم ڈر میں پناہ ڈھونڈنے لگتی ہے، بزدلی کو حکمت اور جنگ سے گریزکو شعار بنالیتی ہے، جہاد کی جگہ جمود کو اپنا لیتی ہے، ملت کے بجائے مفاد کو ترجیح دینے لگتی ہے، موت سے خوف کھانے لگتی ہے تو دشمنوں کے لیے وہ مال غنیمت بن جاتی ہے۔ اس کا وجود طوفانوں کی زد میں آجاتا ہے۔ دنیا اس کے لیے جائے پناہ نہیں رہتی۔ ملک وقوم کی عظمت کی حفاظت قوت بازو اور جہاد میں ہے۔ دشمنوں سے مذاکرات کے نام پر پناہ اور جنگ کے نام پر تعلقات عامہ میں نہیں۔ جنگیں اسلحہ کی کثرت اور افواج کی تعداد سے نہیں نظریے اور یقین کی قوت سے جیتی جاتی ہیں۔
چیچنیا کے شہر گروزنی کا جس رات روسی فوج نے محاصرہ کیا ایک نوے سالہ ریٹائرڈ ٹیچر سلیمان گرانوف ساری رات شہر کی گلیوں میں گھومتا رہا صدائیں بلند کرتا رہا ’’شہر کے لوگو خبردار روسی فوج کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا فتح وشکست کے فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں‘‘۔ اس پکار میں اتنا درد تھا کہ کسی بھی شخص نے ہتھیار نہیں ڈالے اور مقابلے میں روسیوں پر فتح پائی۔