عجیب عجیب کام ہورہے ہیں کس بات پر گرفت کی جائے کس پر نہیں یہ سارے کام تبدیلی اور مدینے جیسی فلاحی ریاست کے نام پر کیے جارہے ہیں۔ جب عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا کرپشن کو خرابی کا اصل سبب قرار دیا اس کے بعد انتخابات ہوئے تو ایسا لگ رہا تھا کہ عمران خان کامیاب ہوجائیں گے لیکن 2013ء میں وہ صرف 32 نشستوں سے آگے نہیں جاسکے۔ البتہ پانچ ماہ دھرنا دے کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ حتیٰ کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد وہ وزیراعظم بن ہی گئے۔ کیسے بنے؟؟ یہ بحث اب 120 دن پرانی ہوگئی بہت ساری مٹی ڈالی جاچکی ہے۔ معاشی ناکامی یا کامیابی کے دعوے کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہر حکومت ناکام ہوئی ہے اور کامیابی کے دعوے کرتی ہے ہر حکومت ساری خرابیوں کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو قرار دیتی ہے۔ لیکن مدینے کی ریاست بنانے والوں نے تین اہم میدانوں میں بری طرح شکست کھائی یا پوری طرح بے نقاب ہوگئے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ یہ حکومت بھی سابق حکمرانوں کی طرح ناکام ہوجائے گی۔ تکلیف دہ عمل یہ تھا کہ اقتصادی مشاورتی کونسل میں دو دو قادیانیوں کے تقرر پر اصرار کیا گیا اور جب شور مچا تو خاموشی سے دونوں کو فارغ کردیا گیا۔ لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ قادیانی مشیروں کو نکالنے کے بعد اقتصادی مشاورتی کونسل کا ایک ہی اجلاس ہوا۔ گویا افادیت کونسل میں نہیں مشیروں میں تھی اس لیے اجلاس کی کیا ضرورت دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب توہین رسالت کی مجرمہ آسیہ مسیح کے حق میں عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا اور حکمرانوں نے احتجاج کرنے والوں کو غدار قرار دیا اس پر بھی ملک گیر احتجاج ہوا تو عدالت عظمیٰ پر سارا بوجھ ڈال کر سائڈ لائن پر آگئے۔ اگلا مرحلہ اور بھی سنگین ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے قرار داد پیش کی کہ پاکستان میں شراب پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ ہندوؤں اور عیسائیوں کے نام پر شراب کے لائسنس دیے جارہے ہیں اور اسلام کی طرح ان دونوں مذاہب بلکہ دنیا کے کسی مذہب میں شراب حلال نہیں، ہر مذہب اسے حرام قرار دیتا ہے۔ لیکن ایک معزز مسلمان اسپیکر، مدینے کی ریاست کے دعویدار وزرا اور پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا ناپاک ترین گٹھ جوڑ ہوگیا۔ اس بل پر رائے شماری کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ یہ کیا ہوا؟ کسی نے سوال نہیں کیا مدینے کی ریاست میں تو شراب حرام قرار دی گئی، ایک روایت تو یہ ہے کہ لوگوں نے گلیوں میں شراب بہادی جو پی چکا تھا حلق میں انگلی ڈال کر اُلٹی کردی لیکن یہاں کیا ہورہا ہے گلیوں میں شراب خانے بنانے کے لائسنس دیے جارہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ غیر مسلم اقلیتوں کو شراب کے لائسنس دیے گئے ہیں اور پیتے مسلمان ہیں۔ اس حکم کے ساتھ ایک اور مذاق کیا گیا، ابھی شراب پر پابندی کی قرار داد پر رائے شماری روکے چند روز بھی نہیں ہوئے تھے کہ سگریٹ پر ایک ٹیکس گناہ ٹیکس کے نام سے لگادیا گیا کہ سگریٹ پینے والوں میں احساس گناہ پیدا ہوگا اور وہ رک جائیں گے۔ اس قدر بھونڈی بات کی گئی اور اس قدر بڑا گناہ کیا گیا ہے سگریٹ جیسی چیز پر تو گناہ ٹیکس لگادیا گیا اور گناہ کبیرہ کے لائسنس تقسیم کیے جارہے ہیں، یہ دین کے احکامات کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا یہ سمجھا جارہا ہے کہ اس قسم کے احکامات سے یورپ کو خوش کردیا جائے گا، ایسے کام کرکے مدینے کی ریاست نہیں بنتی۔
ایک اور دل ہلادینے والا کام حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سودی نظام کے حق میں عدالت عظمیٰ میں گئی تھی اب عدالت نے اسے نئے سرے سے کھولنے کی کوشش کی ہے۔ شریعت عدالت میں بھی یہی سوال اُٹھ رہا ہے کہ سود اور ربا کیا ہے۔ ربا اور منافع کیا ہے گویا وہی 14 سو سال پرانے سوالات۔ بڑی ہمت ہے مدینے کی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کی۔ کسی کو اللہ کا خوف نہیں۔ کہیں کسی مولوی سے تقریر کروالی، کہیں سیرت کانفرنس کرالی اور دوچار مذہبی پروگرام کرالیے بس بن گئی مدینے کی ریاست۔ لیکن جولائی 2018ء کے بعد سے جو اقدامات ہورہے ہیں اور بہت تیزی سے ہورہے ہیں ان کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان اور ان کو لانے والے مدینے کی ریاست بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ہماری رائے بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی والے مدینے کی ریاست قائم کرنے میں سو فی صد کامیاب ہوچکے ہیں۔ بس ہماری سمجھ کا مسئلہ ہے، مدینے کی جو ریاست حضورؐ کی بعثت اور ہجرت سے پہلے تھی اس میں سود کا کاروبار عروج پر تھا۔ شراب نوشی عام تھی، مخلوط محافل عام تھیں۔ غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون تھا۔ خدا کی نافرمانی عام تھی۔ دین اول تو تھا نہیں اور پھر بھی کوئی اگر خدا کی کتابوں اور رسولوں کی بات کرتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا (جیسا آج اڑایا جاتا ہے) یہی نقشہ تھا اس ریاست کا اور حکمرانوں نے مدینے میں حضورؐ کی آمد سے پہلے والی بات تو بتادی ہے۔ اب حضور پاکؐ کے دیے ہوئے دین اور قانون کو نافذ کرکے ساری ناپاکی دور کرنا ہوگی اور شریعت کا نفاذ کرنا ہوگا، یہ سعادت کس کو نصیب ہوتی ہے۔۔۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے اور وہی اس کا فیصلہ کرے گا۔