پلاسٹک تھیلیوں پر پھر پابندی 

209

حکومت سندھ نے صوبے میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے ۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کے مضر اثرات کے بارے میں دو رائے نہیں ہیں ۔ ان کے فوائد تو چند ہی ہیں مگر ان کے مضر اثرات سراسر ہیں ۔ ان کے ماحولیات پر انتہائی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ سیوریج لائنوں کی بندش سے لے کر درختوں اور بجلی کے تاروں پر لپٹے ہوئے یہ شاپنگ بیگ اپنی کتھا خود سناتے ہیں ۔ صوبائی حکومت کا ان تھیلیوں کی بندش کا حکم نامہ ایک مستحسن قدم ہے ۔ مگر بات اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ۔ مذکورہ پابندی کوئی پہلی مرتبہ عائد نہیں کی گئی ہے ۔ یہی پابندی اس سے قبل کئی مرتبہ عائد کی جاچکی ہے۔ اس پابندی پر زور شور سے عملدرآمدبھی شروع ہوتا ہے مگر پھر نہ جانے کیا ہوتا ہے کہ پابندی کا حکم نامہ ہوا میں غائب ہوجاتا ہے ۔ ایک مرتبہ بھی اس پابندی پر عملدرآمد ہوتے نہیں دیکھا گیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ اس حکم کو اپنے بھتے میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہے ۔ کیوں کہ کہیں پر بھی پلاسٹک کی تھیلیاں بننے کا عمل رکتے نہیں دیکھا گیا۔ حکومت سندھ صرف یہی حکم نہیں بلکہ اس جیسے اور بھی کئی حکم ماضی میں جاری کرتی رہی ہے جو مفاد عامہ کے لیے انتہائی ضروری ہیں ۔ تاہم ایک بھی حکم ایسا نہیں ہے جس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا گیا ہو ۔ ایسا ہی ایک حکم گٹکے اور مین پوری کی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے ۔ اس حکم کے بعد یہ تو ضرور ہوا کہ گٹکے اور مین پوری کے نرخ میں اضافہ ہوگیا مگر ایسا کہیں بھی نہیں ہوا کہ گٹکے اور مین پوری کی دستیابی ختم ہوگئی ہو ۔ المیہ یہ ہے کہ پولیس اور بلدیہ کے اہلکار جو اس پابندی پر عملدرآمد کی پابندی کے ذمہ دار ہیں ، وہ بھی گٹکے اور مین پوری کی لت میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ سندھ حکومت کو قوانین کے نفاذ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ۔ نفاذ کی طاقت کے بغیر قاعدے اور قانون حکومت کے مذاق کا باعث بنتے ہیں اور لاقانونیت کو فروغ دیتے ہیں ۔ اس کا فائدہ قانون شکنوں ہی کو ہوتا ہے اور قانون پر عملدرآمد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔