خواجہ رفیق شہید سے سعد رفیق تک

292

خواجہ سعد رفیق اور ان کے چھوٹے بھائی سلمان رفیق کی گرفتاری کی خبر پڑھ کر ان کے والد گرامی خواجہ محمد رفیق شہید بے طرح یاد آئے، ان سے ہماری یاد اللہ کئی برسوں پر محیط ہے۔ یہ 1970ء کی دہائی کا وہ زمانہ ہے جب ہم لاہور میں ہفت روزہ ایشیا سے وابستہ تھے۔ ایشیا کے مدیر شہیر تو ملک نصر اللہ خان عزیز تھے جو بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کے رفیق اور ان کے پائے کے ایڈیٹر تھے لیکن پیرانہ سالی کے سبب ایشیا کے ادارتی و انتظامی امور سے لاتعلق ہوگئے تھے اور یہ ذمے داری چودھری غلام جیلانی صاحب پر آن پڑی تھی جو ادبی دنیا میں ممتاز افسانہ نگار جیلانی بی اے کے نام سے جانے جاتے تھے۔ جیلانی صاحب ایشیا کے مدیر مسؤل بھی تھے اور مدیر منتظم بھی، البتہ پرچے کی پیشانی پر ملک نصر اللہ خان عزیز ہی کا نام چھپتا تھا۔ ملک صاحب بے مثال طنز نگار اور کالم نویس تھے، وہ پرچے کے لیے ’’سیر و سفر‘‘ اور ’’تیرونشتر‘‘ کے عنوان سے دو کالم لکھتے تھے۔ اُس زمانے میں فیکس مشین بھی نایاب تھی، انٹرنیٹ کا تو خیر اس وقت کوئی تصور بھی نہ تھا اس لیے ملک صاحب کی تحریر لانے کے لیے ہمیں ہر ہفتے ان کے گھر پر حاضری دینا پڑتی تھی اور بلاشبہ یہ ایک بڑی سعادت تھی۔ ملک صاحب نہایت بذلہ سنج اور خوش گفتار شخصیت تھے ان سے مل کر اور باتیں کرکے لطف آجاتا تھا۔ رہے جیلانی صاحب تو ان کے اندر بھی غیر معمولی جاذبیت پائی جاتی تھی۔ ان سے ایک دفعہ ملنے والا دوسری بار ملنے کی خواہش ضرور کرتا تھا۔ جیلانی صاحب وسطی پنجاب کے نہایت اوسط درجے کے زمیندار تھے، گزراوقات زرعی آمدن پر تھی، زمینوں سے جو ملتا گھر بار، دوستوں اور جماعت اسلامی پر خرچ کردیتے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو مرشد کہتے تھے اور بتاتے تھے کہ جب سید مودودی نے اسلامیہ کالج لاہور میں دینیات کے استاد کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا تو وہ اس
وقت کالج میں تھرڈ ایئر کے طالب علم تھے۔ سید مودودی کے لیکچر کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوتا تو وہ سب سے زیادہ سوالات کرتے اور سید مودودی کے جوابات ان پر سحر طاری کردیتے۔ اس طرح تعلق بڑھتا گیا یہاں تک کہ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے اپنی زندگی سید مودودی کے سپرد کردی۔ جیلانی صاحب ایشیا کی ذمے داری نبھانے کے ساتھ ساتھ اُس زمانے میں جماعت اسلامی شہر لاہور کے امیر بھی تھے۔ ابھی 1970ء کے انتخابات نہیں ہوئے تھے، پورے ملک میں سخت نظریاتی کشمکش اور ہیجان پایا جاتا تھا۔ جماعت اسلامی بھی سید مودودی کی قیادت میں بہت فعال تھی، لاہور جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کا مرکز بنا ہوا تھا، ایسے میں امیر شہر کی حیثیت سے جیلانی صاحب کی مصروفیات بھی بہت بڑھ گئی تھیں، وہ لاہور کے تمام چیدہ چیدہ سیاستدانوں اور لیڈروں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے اور ان میں خواجہ رفیق بھی شامل تھے جو بعد میں پیپلز پارٹی کی گولی کا نشانہ بن کر مقام شہادت پر فائز ہوئے۔
جیلانی صاحب کے پاس اُن دنوں ویسپا اسکوٹر تھا وہ اس پر بیٹھ کر شہر کا چکر لگاتے، اس کی عقبی نشست میرے لیے مخصوص تھی۔ خواجہ رفیق سے ہماری ملاقات اسی اسکوٹر پر شہر کے گشت کے دوران ہوئی۔ خواجہ صاحب پہلی نظر میں نہایت سادہ اطوار اور بھلے مانس لگے۔ عمر کوئی پینتالیس پچاس کے درمیان ہوگی، موچی گیٹ کے باہر برکت علی اسلامیہ ہال کے قریب ان کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جس میں ہینڈ بلز، اشتہارات اور
پمفلٹ چھاپنے کی ایک روٹا مشین لگی ہوئی تھی۔ خواجہ صاحب ایک میز اور تین کرسیوں کے ساتھ دکان میں بیٹھتے تھے، ایک کرسی ان کے تصرف میں رہتی اور دو مہمانوں یا گاہکوں کے لیے اگر آدمی دو سے زیادہ ہوتے تو انہیں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ دکان کے ایک کونے میں ایک تخت بچھا ہوا تھا جس پر ایک خوش نویس بیٹھتا تھا جو گاہکوں کے اشتہارات اور پمفلٹ وغیرہ کتابت کرتا تھا، جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے خواجہ صاحب روٹا مشین خود چلاتے تھے کوئی ملازم نہ تھا لیکن سیاست میں ان کا قد کاٹھ بہت بلند تھا، ان کا تعلق حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ سے تھا جس میں نوابزادہ نصر اللہ خان اور مغربی پاکستان کے کئی اہم لیڈر شامل تھے۔ بعد میں شیخ مجیب الرحمن نے عوامی لیگ پر قبضہ کرلیا اور اپنے چھ نکات پیش کرکے پاکستان سے علیحدگی کے راستے پر چل پڑے تو خواجہ صاحب اور نوابزادہ نصر اللہ خان بھی عوامی لیگ سے الگ ہوگئے۔ خواجہ صاحب نے شاید نظام اسلام پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ پارٹی سابق وزیراعظم چودھری محمد علی نے قائم کی تھی، البتہ انہوں نے اپنے سیاسی نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں کی، ہمیشہ عوامی مسائل کے بے باک ترجمان اور سرمایہ دارانہ نظام کے پرجوش مخالف بنے رہے۔ وہ چاہتے تو ہر زمانے میں اپنی سیاسی مقبولیت کو کیش کراسکتے تھے۔ جنرل ایوب خان کے نورتنوں میں بھی ان کا شمار ہوسکتا تھا، اس طرح شہرت کے ساتھ ساتھ دولت بھی ان کے گھر کی لونڈی بن جاتی لیکن انہوں نے اس حرافہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور ہمیشہ سادگی و قناعت سے گزارہ کرتے رہے۔ خواجہ صاحب نے ہمیشہ اپوزیشن کی سیاست کی۔ ایوب آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔ پھر جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے
ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو خواجہ صاحب سراپا احتجاج بن گئے اور جلسوں میں بھٹو کے خلاف بڑی جارحانہ تقریریں کرنے لگے۔ انہیں سقوط مشرقی پاکستان کا بڑا دکھ تھا۔ بات کرتے کرتے رو پڑتے تھے، وہ جلسوں میں صاف کہتے تھے کہ بھٹو اس سانحے کا بنیادی کردار ہے اگر وہ اپنی ہوسِ اقتدار پر قابو پالیتا تو یہ سانحہ نہ ہوتا، یا کم از کم اتنی خونریزی اور بربادی نہ ہوتی جو ہوئی وہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے سخت خلاف تھے اور اسے بھٹو یحییٰ گٹھ جوڑ کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ بھٹو حکومت کی مخالفت خواجہ صاحب کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی اور انہیں حکومت کے خلاف نکالے گئے ایک جلوس میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی پورے شہر پر سوگ طاری ہوگیا اور تمام بڑے بڑے بازار فوری طور پر بند ہوگئے۔
خواجہ محمد رفیق کی شہادت کے وقت ان کے دونوں بیٹے سعد رفیق اور سلمان رفیق بہت چھوٹے تھے اور اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے۔ خواجہ صاحب کے خاندان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا لیکن خواجہ صاحب کی بیگم نے بڑی ہمت سے کام لیا، وہ اپنے شہید شوہر کی حق گوئی کا پرچم اُٹھا کر میدان سیاست میں آگئیں۔ مسلم لیگ نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئیں۔ اس طرح مسلم لیگ جو بعد میں مسلم لیگ (ن) بن گئی کے ساتھ خواجہ فیملی کا مضبوط رشتہ استوار ہوگیا۔ خواجہ سعد رفیق نے بھی حصول تعلیم کے بعد مسلم لیگ (ن) کو جوائن کرلیا اور سیاست کو بطور پیشہ اپنالیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کہا کرتے تھے کہ پیپلز پارٹی کا نام سنتے ہی میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے جذبات بھی یہی تھے کہ پیپلز پارٹی ان کے باپ کی قاتل تھی اور وہ اس سے کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہ تھے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی دونوں کا
سیاسی کلچر یہ ہے کہ ان میں جو بھی آتا ہے وہ پہلے مال بنانے پر توجہ دیتا ہے۔ سعد رفیق بھی مسلم لیگ (ن) جوائن کرتے ہی اس کام پر لگ گئے۔ ایک زمانے میں سعد رفیق پرائز بانڈز والے مشہور تھے۔ یعنی مختلف مالیت کے پرائز بانڈز کا جو پہلا اور دوسرا انعام نکلتا تھا وہ سعد رفیق کا ہوتا تھا۔ قارئین جانتے ہیں کہ اس طرح انعام نکلتا نہیں بلکہ جن لوگوں کا انعام نکلتا ہے ان سے انعام یافتہ پرائز بانڈ خریدا جاتا ہے اور اس کے ذریعے بلیک منی کو وائٹ بنایا جاتا ہے۔ سعد رفیق کے پاس بلیک منی کہاں سے آئی، ہمیں نہیں معلوم لیکن وہ انعام یافتہ پرائز بانڈز خریدنے کا کاروبار کرتے رہے ہیں پھر انہوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ذریعے اربوں کمائے، اب وہ پیراگون سٹی اسکینڈل میں نیب کی تحویل میں ہیں۔ سعد رفیق اسے انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں، بلاشبہ یہ انتقامی کارروائی ہے ورنہ اس شعبے میں سعد رفیق سے بھی زیادہ ’’ہنرمند‘‘ لوگ پی ٹی آئی میں ہیں اور نیب ان کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ سنا ہے کہ نیب کی گرفت سے پہلے سعد رفیق بھی پی ٹی آئی جوائن کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کسی بڑے عہدے کے خواہاں تھے جو انہیں نہ مل سکا اور یہ پروگرام دھرا رہ گیا ورنہ ہم دیکھتے کہ سعد رفیق پر کون ہاتھ ڈالتا۔ بہرکیف سعد رفیق نے اپنے والد گرامی کی نیک نامی کو کیش کراکے کچھ اچھا نہیں کیا، ان کی روح اپنے بیٹوں کو جیل میں دیکھ کر ضرور تڑپی ہوگی۔