بسنت سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا؟

281

اب اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حکومت کی سمت اور جدو جہدپاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کی طرف نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے ۔ ہر وہ کام کیا جا رہا ہے جو غیر ضروری ہے یا پھر اسلامی احکامات سے متصادم ۔ حکومت اور وزراء کا سارا زور اپوزیشن خصوصاً شریف خاندان اور زرداری کے احتساب پر ہے ۔ معاشی اقدامات قرضے اور مانگے تانگے والے ہیں اراکین اسمبلی شراب پر پابندی کے بل کی مخالفت کر کے شرعی حکم کی مخالفت کے مجرم بن گئے ۔ قادیانیت نوازی میں کسی نہ کسی طور معاونت کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ پنجاب میں بسنت پر پابندی ختم کی جائے گی اس سے شاید پنجاب کے غریب عوام کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے ۔ فیصلہ ہوا ہے کہ فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت منائی جائے گی ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری صاحب نے بھی بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں بسنت پر پابندی کا خاتمہ خوش آئند ہے ۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان صاحب نے بڑا زبر دست تیر مارا ہے ، فرمایا ہے کہ اس معاملے میں ایک 8رکنی کمیٹی8 دن میں رپورٹ پیش کرے گی ۔ اس کمیٹی کے ذمے یہ کام ہو گاکہ وہ کیمیکل والی ڈور سمیت دیگر معاملات پر سفارشات پیش کرے گی ۔ کیمیکل کی ڈور پر پہلے ہی پابندی تھی لیکن جب پتنگ اُڑتی ہے تو کون پکڑ سکتا ہے کہ کون سی پتنگ میں کیمیکل ڈور ہے اور کون سی اس کے بغیر ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کے بے شمار مسائل چھوڑ کر حکومت بسنت کے پیچھے کیوں پڑ گئی ۔ ظاہری بات ہے جب بسنت منانے کا فیصلہ ہو گا تو قوم پتنگوں میں اُلجھ جائے گی ۔ کوئی اختلاف کرے تو اس سے اُلجھ جائے گی ۔ یوں حکومت کے مزے آ جائیں گے ۔ اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے یہ کہہ کر عدلیہ کو متنازع بنا دیا کہ زرداری اور نوا شریف2019ء جیل میں گزاریں گے ۔گویا عدالت وہی فیصلہ کرے گی جو وفاقی وزیر نے کہا ہے یا حکومت نے عدالت کو کوئی حکم دیا ہے ۔ کیا عدلیہ حکومت کی ما تحت ہے یا اس نے حکومت کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے ۔ عدالت کو یہ سوال تو پوچھنا چاہیے کہ وفاقی وزیر یہ کیسے کہہ رہا ہے کہ نواز شریف اور زرداری اگلا سال جیل میں گزاریں گے ۔ یا پھر یہ امر واقعہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ میں کوئی ملی بھگت ہے ۔بہر حال وفاقی وزیر کا بیان خاصا متنازع ہے ۔ صرف وزیر اطلاعات پر موقوف نہیں بیان بازی کے بادشاہ شیخ رشید بھی اسی طرح بولے ہیں گویا ان کو بھی ٹرینیں چلا چلا کر فرصت مل گئی ہے اور ریلوے بہت ترقی کر کے دنیا کی پہلی دس ریلویز میں آ گئی ہے ۔ کہتے ہیں کہ ملک لوٹنے والوں پر مارچ سے پہلے جھاڑو پھرجائے گی ۔ یہ تاریخیں دینا ان کی عادت ہے ۔ پھر شریف خاندان کی مخالفت کی گئی ہے ۔ صحافی پر تشدد کا مقدمہ نواز شریف پر بننے کا مطالبہ جائز ہے لیکن اسی طرح کا مطالبہ حکومتی وزراء ، گورنر اور اپنے پروٹوکول والوں کے تشدد پر بھی کرنا چاہیے ۔ا یسے واقعات بار بار ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کابینہ کے جائزہ اجلاس میں وزراء کو جو ٹاسک دیا گیا تھا اور کارکردگی جانچنے کا فیصلہ کیا گیا تھا وہ زیادہ سے زیادہ سخت اور چبھتا ہوا بیان دینے کا ٹاسک تھا ۔ چنانچہ ہر وزیر اس میدان میں کود رہا ہے ۔ ہم بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ حکومت غلط رُخ پر جارہی ہے ۔ اپنے کام کریں کچھ کھاتے میں ہوگا تو قبل از وقت انتخابات میں اُتر سکیں گے ۔ ہر مرتبہ مخالف کو باندھ کر اور آر ٹی ایس بٹھا کر الیکشن نہیں جتایا جا سکتا ۔ کم از کم انتخابی دھاندلی کمیشن قائم کر کے اس معاملے ہی کو نمٹا لیا جائے ۔ بسنت منا کر عوام کی کون سی خدمت کی جائے گی ۔ معیشت کوکیا فائدہ ہو گا ۔ اگر کسی کویاد ہو تو یہ بھی جنرل پرویز کی پالیسی کا حصہ تھا وہ بسنت اور مخلوط میریتھن وغیرہ کے بڑے شوقین تھے ۔ ان کی منطق قومی مسائل کے مقابلے میں بالکل اُلٹ تھی ۔ ملک معاشی بحران کا شکار تھا ، وہ خود کہتے تھے کہ لاکھوں لوگ غربت کا شکار ہیں،ا گر بسنت منا لیں گے تو خوش ہو جائیں گے ۔ آج ان کے سابق ترجمان فواد چودھری خوشی کا اظہار کر رہے ہیں گویا جنرل مشرف کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر ان کے سابق ترجمان کا ظہار مسرت ہے ۔ حکومت اب ایک اور منی بجٹ بھی لانے پر غور کر رہی ہے ۔ کیا منی بجٹ بسنت منانے پر ہونے والے اخراجات کے لیے لایا جائے گا ۔ اس ایک فضول کام پر قوم کے کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔انسانی جانوں کا الگ نقصان ہوتا ہے ۔ اس فیصلے پر بھی کیا عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ پنجاب کو نوٹس لینا ہو گا ۔۔۔ یا ابھی معاملہ قابل دست اندازی عدالت نہیں ہوا ۔۔۔