آٹھ سال ہوئے جب 17 دسمبر کو تونس میں سڑک پر سبزی بیچنے والے نوجوان محمد بوعزیزی نے حکام کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر خودکو آگ لگا دی تھی جس کے شعلوں نے عوام میں ایسی آگ بھڑکا دی کہ 24 سال سے اقتدار پر قابض آمر زین العابدین بن علی کی حکومت کو آناً فاناً بھسم کر کے رکھ دیا۔ اس آگ کے شعلے تونس تک محدود نہیں رہے بلکہ مصر سے یمن اور لیبیا اور مراکش سے بحرین تک آمر حکمرانوں کے خلاف جمہوری انقلاب کی آگ بھڑک اٹھی جسے عرب بہار کا نام دیا گیا۔
تونس میں تو اس بہار کے جمہوری پھول کی کونپلیں پھوٹیں جو اب بھی باد مخالف کی زد میں ہیں لیکن جن ملکوں میں عرب بہار کی لہر اٹھی تھی وہاں حالات پہلے سے بدتر ہیں۔ سب سے زیادہ عذاب مصر پر آیا جہاں 37سال سے اقتدار پر قابض حسنی مبارک سے نجات حاصل کرنے کے لیے لاکھوں افراد قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں جمہوریت کی شمع کی چاہت میں دیوانہ وار جمع ہوگئے اور سترہ روز کے اندر اندر حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا۔ فاتح عوام بہت خوش تھے کہ حسنی مبارک کے دور کے خاتمے کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات منعقد ہوئے۔ لیکن ان انتخابات میں اخوان المسلمون کی کامیابی اور محمد مرسی کے صدر منتخب ہونے پر واشنگٹن، تل ابیب اور ریاض تک ہل چل مچ گئی اور ان انتخابات کو رد کرنے کے لیے امریکا کی پشت پناہی اور ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کے بل پر مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اور منتخب صدر محمد مرسی کو پابند سلاسل کر کے ان کو مقدمات کے گھیرے میں لے لیا۔ سعودی عرب نے بھی اخوان المسلمون پر کاری وار کرنے کے لیے جنرل السیسی کو بارہ ارب ڈالر کی امداد دی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح اسرائیل، مصر کا دوست اور اتحادی بن کر ابھرا۔
عرب بہار نے سعودی عرب کا تو رخ نہیں کیا لیکن اس خطرے کی پیش بینی کرتے ہوئے وہاں نوجوان ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کو کار چلانے کی اجازت دے کر اور امریکی اور مغربی فلموں کے لیے سنیما گھر کے دروازے کھول کر عرب بہار کو روکنے کی کوشش کی۔ لیکن استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں صحافی جمال خاشق جی کے بہیمانہ قتل نے اقتدار کے آسمان پر ولی عہد کے چڑھتے ہوئے سورج کوگہنا کے رکھ دیا۔ پھر امریکا کے سیاسی، فوجی اور اقتصادی چھاتے تلے اسرائیل سے قربت کی وجہ سے سعودی عرب کی معتبری کو سخت دھچکا پہنچا ہے۔
تونس کو عرب بہار کی کامیابی پر فخر تھا اور جمہوری حکومتوں نے جمہوریت کو واقعی فروغ دیا لیکن یہ حکومتیں سنگین اقتصادی مسائل پر قابو پانے میں ناکام رہیں جس کے بعد تونس میں جمہوری مستقبل خطرہ میں نظر آتا ہے۔ درایں اثنا تیل کے پیاسے، مغربی ممالک نے لیبیا میں عرب بہار کی آڑ لے کر معمر قذافی کا نہ صرف تختہ الٹ دیا بلکہ لیبیا کی سر زمین کو ان کے خون سے داغدار کردیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو معمر قذافی کے مجوزہ افریقی مرکزی بینک اور نئی کرنسی کے منصوبے سے شدید خطرہ تھا کہ کہیں ڈالر کی بادشاہت نہ ختم ہو جائے۔ مغربی ممالک کو قذافی کے جوہری عزائم سے بھی دھڑکا لگا ہوا تھا۔ مغربی طاقتوں نے معمر قذافی کا تو خاتمہ کردیا لیکن اس کے نتیجے میں ملک دو حکومتوں اور دو پارلیمنٹوں میں بٹ گیا اور جنگجو سرداروں کی ولایتوں میں تقسیم ہوگیا۔
شام میں عرب بہار نے ہولناک خانہ جنگی کا رخ اختیار کر لیا جس میں امریکا، سعودی عرب سمیت اس کے اتحادی کود پڑے۔ یوں عرب بہار کے نام پر ہلاکت و تباہی اور بربادی کی ایسی آگ بھڑکا دی جو چار سال گزرنے کے بعد اب بھی بھڑک رہی ہے۔ ادھر بحرین میں عرب بہار کی جو لہر اٹھی وہ سعودی عرب نے اپنی فوجی امداد سے روک دی۔ فلسطینیوں کو امید تھی کہ عرب بہار ان کے دکھوں کا مداوا ثابت ہوگی خاص طور پر مصر کے انقلاب کے بعد انہیں توقع تھی کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں ان کے ہاتھ مضبوط ہوں گے لیکن مصر میں جنرل السیسی کی فوجی حکومت اور اس کی اسرائیل کے ساتھ قربت نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
عرب بہار کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ ایک تو اس تحریک کی کوئی مضبوط قیادت نہیں تھی اور پھر اس تحریک کے پاس وسائل کی کمی تھی۔ اس تحریک میں شامل لوگ صرف جمہوری نظام کی خواہش سے لیس تھے اور مقابلہ ان کا مالدار حکمرانوں کے فوجی اور مالی وسائل سے تھا۔ اسی کے ساتھ عرب حکمرانوں نے عرب بہار کو اپنی بقا کے لیے شدید خطرہ گردانا اور اس کو کچلنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی اور مشترکہ اقدامات کیے۔
مراکش میں بادشاہ محمد V1 کے خلاف شورش کے خاتمے کے لیے سخت گیر اقدامات اور سعودی عرب کی مالی امداد کے بل پر اقتصادی اصلاحات اور مراعات کارگر ثابت ہوئیں۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک عرب بہار گو خزاں سے اُجڑ گئی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ اب بھی اس کی وقتی کامیابی جمہوریت پسند قوتوں کو وجدان بخشتی ہے۔ ایک سال کے دوران چار آمر حکمرانوں تونس کے بن علی، مصر کے حسنی مبارک، لیبیا کے معمر قذافی اور یمن کے علی عبدالاصالح کی حکمرانی کا خاتمہ کچھ کم کامیابی نہیں تھی۔ پھر اس دوران کئی ملکوں میں انتخابات ہوئے اور کم سے کم تونس میں جمہوریت کا قیام بھی عرب بہار کا مرہوں منت ہے۔ عرب بہار نے یہ بات بھی باطل ثابت کر دی کہ عرب عوام اس قدر کاہل ہیں کہ ان سے کسی انقلابی اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ عرب بہار یکسر ختم ہو گئی ہے۔ اب بھی کئی ملکوں میں اس کی راکھ میں آگ سلگ رہی ہے اور مشرق وسطیٰ میں وہ حالات برقرار ہیں جن کی وجہ سے آٹھ سال پہلے عرب بہار شروع ہوئی تھی۔ اب بھی آمر حکمران اور آمرانہ حکومتیں ہیں، عوام اقتصادی مصائب سے گزر رہے ہیں، عدل و انصاف کا فقدان ہے اور بدعنوانی عام ہے۔