پہلے آپ روزنامہ جنگ کی ایک خبر ملاحظہ فرمالیجیے ’’ملک میں مذہبی منافرت ختم کرنے، بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے، مساجد میں ایک دوسرے کے فرقے کے خلاف کسی قسم کی بات چیت اور تقاریر پر پابندی کے لیے حکومت نے سرکاری سطح پر تمام مساجد میں خطبے کے لیے (خطیبوں کو) تقاریر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ اوقاف کو ہدایات جاری کی جارہی ہیں کہ وہ لکھی ہوئی تقاریر علما کو فراہم کرے۔ ان تقاریر سے ہٹ کر خطاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس سلسلے میں صوبائی کابینہ سے منظوری لی جائے گی‘‘۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 9 دسمبر 2018ء)
یہ خبر پڑھ کر ہمیں یاد آیا کہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہوا تھا۔ اگرچہ جنرل پرویز مشرف اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرسکے تھے مگر فوجی آمر کی تمنا بہرحال یہی تھی کہ وہ ملک کی تمام مساجد کے خطیبوں اور علما کے منہ پر مارشل لا لگادے۔ اس وقت ہم نے ’’نئی دنیا‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم تحریر کی تھی، نظم یہ تھی۔
غلامی فلسفہ ہے
بزدلی پر حکمتیں سایہ فگن ہیں
خوف کی انگڑائیوں کا حُسن
خیرہ کر رہا ہے جیسے آنکھوں کو
صدائے بے ضمیری
دانشِ سقراط و افلاطون سے بڑھ کر ہے
اُدھر دیکھ!
شہیدوں نے
حماقت کی حدوں کو پار کر ڈالا
سُنا ہے
مسجدوں میں اب اماموں کی جگہ
روبوٹس ہوں گے
اور خطیبوں کی جگہ توتے
امیر شہر کی باتیں
تلاوت کے لیے ہوں گی
نئی دنیا کا ہر منظر نیا ہوگا
پرانا پن
بجائے خود سزا ہوگا
بدقسمتی سے اس وقت عمران خان کے نئے پاکستان میں ’’سول مارشل لا‘‘ کا منظر ہے۔ چناں چہ اماموں اور خطیبوں کے منہ پر سول مارشل لا لگانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور اس سلسلے میں فرقہ وارانہ اور مذہبی منافرت کی آڑ ’’ایجاد‘‘ کی جارہی ہے۔ مگر ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کے تناظر میں اس صورتِ حال کا مفہوم کیا ہے؟
جمعے کا خطبہ اماموں اور خطیبوں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ خطبے کا ادارہ رسول اکرمؐ کا قائم کردہ ادارہ ہے۔ چناں چہ خطیبوں کے خطبے کو سرکاری اور درباری بنانے کی کوشش دراصل رسول اکرمؐ کے قائم کردہ ادارے پر حملہ ہے۔ عام طور پر خطیبوں کو بھی اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ وہ جس مقام پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے ہیں کبھی اس مقام پر کھڑے ہو کر رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین خطبہ دیا کرتے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر خطیب رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کا قائم مقام ہے۔ چناں چہ خطبے کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ سرکاری یا درباری ہوگا۔ خطیب اصولی اعتبار سے صرف وہی کہنے کا پابند ہے جو دین کی مصلحت ہے۔ مگر دین کی مصلحت کیا ہے؟ دین کی ایک مصلحت یہ ہے کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان اور نفاذ ہو۔ دین کی ایک مصلحت یہ ہے کہ خطیب حق کا علمبردار بنے اور عوام الناس کو حق سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے۔ دین کی ایک مصلحت یہ ہے کہ خطیب بتائے باطل کسے کہتے ہیں اور عہد حاضر کا باطل کون ہے؟ دین کی ایک مصلحت یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا کیا جائے۔ دین کی ایک مصلحت مولانا روم کے الفاظ میں یہ ہے۔
مصلحت در دینِ ماجنگ و شکوہ
مصلحت در دینِ عیسیٰ غار و کوہ
یعنی رسول اکرمؐ کے دین کی مصلحت جنگ اور شکوہ ہے اور سیدنا عیسیٰؑ کے دین کی مصلحت ترک دنیا یعنی غار و کوہ ہے۔
جیسا کہ روزنامہ جنگ کی مذکورہ بالا خبر سے ظاہر ہے کہ حکومت مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تقاریر کا سدباب چاہتی ہے اور اس کی تمنا ہے کہ معاشرے میں ’’بھائی چارہ‘‘ عام ہو۔ یہ بڑے نیک مقاصد ہیں مگر ان مقاصد کے لیے خطیبوں کے منہ پر سول مارشل لا لگانے اور انہیں سرکاری تقاریر مہیا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت چند خطیبوں کا مسئلہ ہے۔ ملک کی اکثر مساجد مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت سے پاک ہیں۔ چناں چہ حکومت اعلان کرے کہ جس مسجد کا خطیب فرقہ واریت یا مذہبی منافرت پھیلائے گا وہ خطیب نہیں رہ سکے گا۔ سارا ملک جانتا ہے کہ جن مساجد میں فرقہ واریت یا مذہبی منافرت پھیلائی جاتی ہے ان مساجد میں بھی ہر جمعے کا خطبہ فرقہ واریت یا مذہبی منافرت سے متعلق نہیں ہوتا۔ چناں چہ فرقہ واریت پھیلانے کے لیے بدنام خطیبوں کو بھی سرکاری اور درباری تقاریر مہیا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ ایسے لوگوں کو صرف کنٹرول کرنا ضروری ہے اور ریاست یہ کام نہایت آسانی کے ساتھ کرسکتی ہے۔ کراچی میں 1985ء سے قتل و غارت گری ہورہی تھی مگر ہمارے فوجی و سیاسی حکمرانوں اور ایجنسیوں نے اسے روکنے میں کوئی دلچسپی نہ لی، چناں چہ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید کے اے آر وائی کو دیے گئے انٹرویو کے مطابق 35 سال میں کراچی کے اندر 93 ہزار افراد مارے گئے۔ لیکن ریاست اور اس کے اداروں نے حالات پر قابو پانا چاہا تو الطاف حسین کی زبان اور سیاست بھی ایک دن میں بند ہوگئی اور شہر میں قتل و غارت گری کا سلسلہ بھی رُک گیا۔ مطلب یہ کہ فرقہ پرستوں کو صرف ایک فون ہی تو کرنا ہوگا۔
بلاشبہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر میں خطیبوں کو سرکاری اور درباری خطبے فراہم کیے جاتے ہیں مگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بادشاہت ہے اور مصر میں جنرل سیسی کی آمریت۔ عمران خان اور ان کے سرپرستوں کو سرکاری اور درباری خطبوں کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ پہلے پاکستان کو بادشاہت قرار دیں یا اسے فوجی آمریت کا قلعہ قرار دیں۔ اس کے بعد مساجد کے اماموں کو ’’روبوٹس‘‘ اور مساجد کے خطیبوں کو ’’توتے‘‘ بنانا آسان بھی ہوجائے گا اور اس کا ’’سیاسی جواز‘‘ بھی پیدا ہوجائے گا۔ پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہے اور کسی اسلامی جمہوریہ میں اماموں اور خطیبوں کے منہ پر سول مارشل لا نہیں لگایا جاسکتا۔
وطن عزیز میں جرنیلوں نے چار مارشل لا مسلط کرکے سول فوجی منافرت پیدا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مگر جرنیلوں کو کبھی سول فوجی منافرت پھیلانے سے نہیں روکا جاسکا۔ خود ملک کے سیاسی رہنماؤں نے ’’سیاسی منافرت‘‘ کو ایک آرٹ بنادیا ہے۔ کہنے کو پیپلز پارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سیاسی جماعتیں ہیں مگر یہ جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ کہتی رہی ہیں اسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’سیاسی منافرت‘‘ پھیلانے کی کوشش ہی کہا جاسکتا ہے مگر یہ سیاسی منافرت نہ میاں نواز شریف کو نظر آتی ہے نہ عمران خان کو۔ اس سلسلے میں عمران خان کا ریکارڈ تمام سیاسی رہنماؤں سے زیادہ خراب ہے۔ وہ دوسرے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے ہیں اسے سیاسی گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر عمران خان کو اپنی سیاسی فرقہ واریت اور سیاسی منافرت نظر نہیں آتی البتہ انہیں چند مسجدوں کی فرقہ واریت اور مذہبی منافرت خوب نظر آرہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تمام سیاسی رہنماؤں اور بالخصوص عمران خان کی زبان پر بھی سول مارشل لا لگنا چاہیے۔ حکومت اس سلسلے میں ملک کے بڑے اور آزاد علما اور دانش وروں کا ایک بورڈ قائم کرے جو تمام سیاست دانوں اور بالخصوص عمران خان کو تقاریر لکھ کردے۔ اگر مساجد کے امام روبوٹس اور خطیب توتے بن سکتے ہیں تو عمران خان کو بھی روبوٹ اور توتے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لکھنے کو تو ہم نے یہ فقرہ لکھ دیا مگر لکھ کر خیال آیا کہ عمران خان تو پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے روبوٹ اور توتے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ چناں چہ انہیں مزید روبوٹ اور مزید توتابنانا مشکل ہوگا۔ یہ خیال بظاہر درست ہے مگر عمران خان کی سزا یہ نہیں ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کا روبوٹ اور توتا بنایا جائے ان کی سزا یہ ہے کہ انہیں اپنے مذہب، تہذیب، تاریخ اور اخلاق کی زبان سکھائی جائے۔ یہ زبان عمران خان کی اصل سزا ہوگی۔ عمران خان اور ان کے سرپرستوں کو اس بات کی بڑی فکر ہے کہ معاشرے میں ’’بھائی چارہ‘‘ پھیلے مگر وہ اس سے پہلے خود تو اپنے سیاسی اور غیر سیاسی بھائیوں کو چارہ بنانا چھوڑیں۔
مساجد کے اماموں اور خطیبوں کی تقاریر کو کنٹرول کرنے کی خواہش اپنی اصل میں مذہب کے بیانیے کو کنٹرول کرنے کی خواہش ہے۔ تاریخ کے طویل سفر میں اسلام کے بیانیے کو صرف اسلام دشمن طاقتوں اور دنیا پرست مسلم حکمرانوں نے کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ چناں چہ عمران خان اور ان کے سرپرستوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کون ہیں؟ اسلام دشمن یا دنیا پرست؟ یہ حقیقت راز نہیں کہ مذہب کا بیانیہ مسلم معاشروں کی اصل قوت ہے۔ ان کا اصل جلال اور ان کا اصل جمال ہے۔ چناں چہ مذہب کے بیانیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش معاشرے کو اس کی اصل قوت اور اس کے جلال جمال سے محروم کرنے کی سازش کرنا ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ حکمران خود تو شیر بن کر دہاڑنا چاہتے ہیں مگر ان کی خواہش ہے کہ علما، امام، خطیب، دانش ور، کالم نگار اور صحافی توتوں کی طرح ان کا رٹایا ہوا سبق دہراتے پھریں۔ عمران خان نے اپنی حکمرانی کے آغاز میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسے بچے کے دماغ کی تصویر دکھائی تھی جس کا دماغ غذا کی قلت کی وجہ سے پوری طرح تشکیل نہیں پاسکا تھا۔ اب عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ مساجد کے اماموں اور خطیبوں کو ایسی تقاریر فراہم کریں جن کو سن کر کروڑوں نمازی ایسی روحانی، علمی اور اخلاقی غذا کھائیں کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے روحانی، اخلاقی اور علمی قحط زدگان میں ڈھل کر رہ جائیں۔ قوم نوٹ کرے۔ عمران خان کے نئے پاکستان کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ ہر مسجد میں خطیبوں کی جگہ توتے ہیں اور ہر مسجد میں جمعے کا خطبہ سماعت کرنے والوں میں روحانی، اخلاقی اور علمی اعتبار سے Stunted لوگ شامل ہیں۔