منفرد اور احسن روایات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس نے چاروں طرف سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کاجائزہ لینے کی سہ ماہی رسم پاکستان کا وہ اعزاز ہے جس کی دوسرے جمہوری ملکوں میں جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس پر وہ ممالک اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ پہلے حکومتی کارکر دگی اخبارات اور ذرائع ابلاغ کی حدتک معمول کے مطابق نشر اور شائع کی جاتی تھی لیکن اپنی بقا کے لیے ہاتھ پیر مارتے اخبارات اور جمہوری ڈکٹیٹر شپ کا مزہ چکھتا کنٹرولڈ میڈیا چوں کہ یہ فرض کما حقہ انجام نہیں دے رہا ہے، لہٰذا حکومت نے یہ فریضہ بھی خود ہی سنبھال لیا ہے۔ اس فریضے کا نام مثبت رپورٹنگ ہے۔ مثبت رپورٹنگ کو آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک صحافی دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا۔ بیگم سے پوچھا ’’کیا پکایا ہے؟‘‘ جواب ملا ’’مٹن بریانی‘‘ تھکا ہارا صحافی جو صوفے پر ڈھیر ہوگیا تھا خوشی خوشی اُٹھا۔ جلدی سے ہاتھ دھوکر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا۔ ڈونگے کا ڈھکن اٹھایا تو اندر سے بینگن کا بھرتا نکلا۔ غصے سے بولا’’یہ کیا مذاق ہے‘‘ بیگم نے مسکراتے ہوئے کان کے پاس منہ لاکر کہا ’’مثبت رپورٹنگ ڈارلنگ۔‘‘ حکومت صحافیوں سے یہی چاہتی ہے۔ میڈیا کے بحران اور سنسر شپ کی وجہ سے الیکٹرونک میڈیا کے متعدد پروگرامز کے بند ہونے، صحافیوں کی چھانٹی، اخبارات کے صفحات میں کمی کو سوشل میڈیا کے مجاہدین غیر علانیہ ڈکٹیٹر شپ سے جوڑ رہے ہیں۔ میڈیا مالکان کا کہنا ہے کہ حکومتی اشتہارات کی پابندی کی وجہ سے جنم لینے والے بحران نے چھانٹیوں پر مجبور کیا ہے۔ بیشتر اخبارات وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی سے معذور نظر آرہے ہیں۔ خیر چھوڑیں عام لوگوں کی ان باتوں کو۔ آئیے سو روزہ جشن ترقی کے قصیدے پڑھیں۔ پشاور کی ایسی ہی جشن زدہ تقریب میں وزیراعلیٰ پختوانخوا نے اپنے بارے میں فرمایا ’’میں بولتا بہت کم ہوں کام زیادہ کرتا ہوں۔‘‘ اس پر نہ جانے کس طرف سے آواز آئی ’’بلیڈ کتنا ہی کام کرلے درخت نہیں کاٹ سکتا‘‘۔
دکھائی دیتے ہیں جو لوگ ہر گھڑی مصروف
بہت سے ان میں کوئی کام تھوڑی کرتے ہیں
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سی پیک کے سلسلے میں وزرائے اعلیٰ کی ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے چین جارہے تھے لیکن حکومت نے عین وقت پر انہیں روک دیا۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ کہیں چینی حکومت یہ باور نہ کرے کہ نئی حکومت نے سی پیک کے سلسلے میں وفد نہیں بھیجا مذاق کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عثمان بزدار سو دن کی واحد کارکردگی ہیں جسے حکومت لوگوں کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔ پھر اب تو وہ خیرسے کچھ کچھ بولنے بھی لگے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک معیار اور مقررکیا ہے فرمایا ہے اب وہی شخص وزیر کے عہدے پر برقرار رہے گا جس کی کارکردگی اطمینان بخش ہوگی یا جو کارکردگی دکھانے کے لیے کم ازکم اُچھلتا کودتا نظر آئے۔ حکومت ذاتی صفات سے محروم شخص کی طرح اپنے سودن کے ایک ایک لمحے کی تعریف اور ستائش چاہتی ہے۔
عوام کی خدمت نام ہے اس فریب کا جو ایک حکومت سے دوسری حکومت تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔ حکومت جذبات کا وہ سمندر ہے جو چاروں طرف سے اپنے ماضی کے دعووں میں غوطے کھا رہی ہے۔ عشق اور مشک کی طرح حکو متی کارکردگی بھی چھپائے نہیں چھپ رہی ہے۔ ڈالر ایک سو چالیس روپے کا تو ہو ہی گیا ہے عنقریب ایک سو پچاس تک بھی پہنچ ہی جائے گا۔ حکومت غریبوں کو سہولتیں دینے کے بجائے دستیاب سہولتیں بھی ان سے چھین رہی ہے۔ سہولتیں ہیں کہ ایک ایک کرکے رخصت ہورہی ہیں جب کہ صعوبتوں نے غریبوں کا گھر دیکھ لیا ہے۔ اس کا ثبوت وہ اطلاعات ہیں جن کے مطابق حکومت ایک اور نئے منی بجٹ کے لانے کی تیاری کررہی ہے۔ چار مہینے میں دو منی بجٹ۔ اس سے بڑھ کر کارکردگی کیا ہوگی؟ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ آدھی رہ جائے گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ مدینے جیسی ریاست کی شکر میں لپٹی گولی کی دھوکے باز کڑواہٹ کا ذائقہ چھپائے نہیں چھپ رہا۔ نیب ایک طرف تحریک انصاف کے کرپٹ افراد سے ایسا سلوک کررہی ہے جیسے کبوتر کو سید پرندہ سمجھنے والے کبوتر سے کرتے ہیں جب کہ اپوزیشن سے وہ سلوک کیا جارہا ہے جیسے سب سسلین مافیا کے نمائندے ہیں۔ فواد چودھری نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری اپنا آخری الیکشن لڑچکے ہیں۔ اب انہوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی بقیہ زندگی گھر میں گزارنی ہے یا جیل میں۔ مقتدر قوتوں کی طرف سے یہ واضح پیغام ہے کہ وطن عزیز کی سیاست کو نواز شریف اور آصف علی زرداری سے صاف کرنا ہے۔ شیخ رشید نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں اسی قسم کے اشارے دیے ہیں۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی اور پھر بین الاقوامی حالات کی وجہ سے نواز شریف کو اقتدار کی منتقلی ایک مجبوری تھی۔ 24دسمبر کو نواز شریف سے اور نااہلی کیس کے ذریعے زرداری سے نجات حاصل کرلی جائے گی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف مقتدر قوتوں کی لائن سے ہٹ کر ملک کو اپنی لائن پر چلانا چاہتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کا باہم مل کر اٹھارویں ترمیم کو پاس کرنا اور گاہے بگاہے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنا اس بات کا متقاضی ہے کہ انہیں سیاست سے باہر کیا جائے۔
سیاسی منظر نامے کو دیکھیے تو بڑی دلچسپ صورت حال ہے۔ اپوزیشن حکومت کو ہٹانے یا اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کررہی ہے۔ اپوزیشن حکومت کو ملک چلانے کا پورا موقع دے رہی ہے لیکن حکومت ہے کہ اس سے ملک چل نہیں رہا۔ حکومت کو ملک چلانے کے لیے دس پندرہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ صرف سعودی عرب سے ایک ایک ارب ڈالر کی دوقسطیں ملی ہیں۔ جن کے بارے میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ’’دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا‘‘ ان ڈالروں کو دیکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں، گن سکتے ہیں لیکن خبردار خرچ نہیں کر سکتے۔ روپے کی قیمت غیر مستحکم ہے، اسٹاک مارکیٹ انڈکس گررہا ہے، شرح ترقی کا کہیں پتا نہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر پست ترین سطح پر ہیں، کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں روبہ زوال ہیں، لوگوں کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جارہی ہے، سر مایہ کاری خواب وخیال کی باتیں ہیں، افراط زر اُوپر ہی اُوپر جارہا ہے، ادائیگیوں کا توازن بگڑتا جارہا ہے، تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے، روپے کے نیچے گرنے سے غیر ملکی قرضہ بڑھتا جارہا ہے، ڈالر ملک سے فرار ہورہا ہے، بے روزگاری کا وہ عالم ہے کہ چند ماہ پہلے جو برسر روزگار تھے وہ بھی آج بے روزگار ہیں، سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے، آئی ایم ایف کا دباؤ زوروں پر ہے لیکن حکومت اور مقتدر قوتوں کی ترجیحات نواز شریف اورآصف علی زرداری کو ملکی سیاست سے کک آؤٹ کرنے تک محدود ہیں۔ ایک مصنوعی سیاسی فضا تشکیل دی جارہی ہے۔ ہر معاملے میں جھوٹ اور بے دریغ جھوٹ سے کام لیا جارہا ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔