بھارت میں انتخابی بخار اور مسلم دشمنی

296

بھارت میں آئندہ سال عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ پورا ملک انتخابی بخار میں مبتلا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں انسانی جذبات سے کھیل کر رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ بھارت اگرچہ ایک سیکولر ملک کہلاتا ہے اس کے آئین میں بھی سیکولرازم کو تحفظ دیا گیا ہے اور بلاامتیاز مذہب، رنگ و نسل تمام شہریوں کو بنیادی، انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے اور برسرزمین حقائق کہیں زیادہ تلخ، ناگوار، اور شرمناک ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ بھارت ہندو اکثریت کا ملک ہے لیکن اتنے بڑے ملک میں مسلمان، عیسائی، سکھ، یہودی، پارسی اور دیگر غیر ہندو اقلیتیں بھی قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں جب کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی غیر ہندو اقلیت ہیں، وہ ماضی بعید میں کم و بیش ایک ہزار سال تک بھارت سمیت پورے برصغیر پر حکمران بھی رہے ہیں، پھر انگریزوں نے 7 سمندر پار سے آکر مسلمانوں سے حکمرانی چھینی اور وہ بھی طویل عرصے تک برصغیر پر حکومت کرتے رہے۔ جب رخصت ہوئے تو مسلمانوں کے مطالبے پر مسلم اکثریت کے علاقوں پر ’’پاکستان‘‘ کی صورت میں ایک نئی اسلامی مملکت قائم کرگئے۔ انگریز خود تو نہیں چاہتے تھے کہ برصغیر کے ٹکڑے ہوں وہ پورے ہندوستان کو ہندو اکثریت کی عملداری میں دے کر رخصت ہونا چاہتے تھے۔ ہندو لیڈروں اور ان کی سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس کے ساتھ انگریزوں کا گٹھ جوڑ بھی تھا لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کررہی تھی، وہ کسی صورت بھی اس بات کے حق میں نہ تھی کہ انگریز ہندوستان سے رخصت ہوں تو ہندو اپنی اکثریت کے بل پر انگریزوں کے جانشین بن جائیں اور مسلمانوں کو اپنی غلامی میں لے لیں۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کے الگ وطن کا کیس بڑی دلیری اور استقامت سے لڑا اور انگریزوں سے قیام پاکستان کا مطالبہ منوانے میں کامیاب رہے۔ ہندوؤں کی نمائندہ جماعت کانگریس کو بھی ہندوستان کی تقسیم کا فارمولا بہ امر مجبوری تسلیم کرنا پڑا۔ لیکن انتہا پسند ہندو قیادت نے ہندوستان کی تقسیم اور اس کے ایک حصے پر پاکستان کے قیام کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ وہ ابتدا ہی سے پاکستان کے انہدام اور اکھنڈ بھارت کے قیام کو اپنا ایجنڈا قرار دیتی آئی ہے۔ البتہ کانگریس کو ایک سیکولر اور لبرل جماعت سمجھا جاتا رہا ہے، اسی تصور کی بنیاد پر بہت سے مسلمانوں اور ان کے قد آور رہنماؤں نے بھی کانگریس کی سیاسی جدوجہد میں اس کا ساتھ دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کی ہندو لیڈر شپ بھی انتہا پسند ہندو قیادت سے مختلف نہ تھی۔ کانگریسی قیادت نے بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا، وہ قیام پاکستان کے فوراً بعد اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئی۔ بالآخر 24 سال بعد 1971ء میں وہ فوجی طاقت کے بل پر پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب رہی۔ کانگریس کے طویل دور اقتدار میں بھارت کے اندر 50 ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے جن میں ہزارہا مسلمان مارے گئے۔ 1992ء میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ بھی کانگریس کے دور حکومت میں پیش آیا۔
کانگریس کے بعد انتہا پسند ہندو جماعتوں کو اقتدار حاصل ہوا تو وہ مسلم دشمنی میں کھل کر سامنے آگئیں اور انہوں نے منافقت کا نقاب اُتار پھینکا جو کانگریس نے اپنے چہرے پر ڈال رکھا تھا۔ اِن جماعتوں نے جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو پریشد، جنتا دل اور سبھی انتہا پسند
شامل ہیں۔ ’’ہندتوا‘‘ کو اپنا فلسفہ حیات قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے بھارت میں بسنے والی ہر قوم، ہر نسل اور ہر برادری کو ہندو ازم کے قالب میں ڈھالنا اور ان پر ہندو مذہب کی چھاپ لگانا۔ مسلمان بھی اس سے مستثنا نہیں ہیں بلکہ ’’ہندتوا‘‘ کا بنیادی ہدف مسلمان ہی ہیں۔ انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بن کر رہنا ہوگا ورنہ سیدھے سبھاؤ وہ پاکستان چلے جائیں جسے انہوں نے بڑے چاؤ سے بنایا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی باقاعدہ ایک تحریک بھی شروع کررکھی ہے جسے وہ ’’گھر واپسی کی تحریک‘‘ قرار دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ موجودہ مسلمانوں کے آباؤاجداد کبھی ہندو تھے اور برصغیر میں مسلمان صوفیا کی تبلیغ سے وہ اسلام قبول کرکے اپنے دھرم سے دور ہوگئے، اب انہیں اپنے دھرم میں واپس آجانا چاہیے۔ ہندو تنظیمیں اس مقصد کے لیے ترغیب و تربیت کے سارے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں۔ مسلمانوں کے کاروبار تباہ کرنا، مسلمان بستیوں کو نذر آتش کرنا اور انہیں بے گھر کرکے جلاوطنی پر مجبور کرنا بھی ہندو تنظیموں کے معمولات میں شامل ہے۔ حال ہی میں مہاراشٹر کے علاقے شاستری نگر میں مسلمانوں کی پوری بستی کو مسمار کردیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے، اب وہ سرچھپانے کے لیے دربدر پھر رہے ہیں اور کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہے۔ اسلامی شعائر و آثار پر ہندو ازم کی چھاپ لگانا بھی ہندتوا کے اہداف میں شامل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں کم و بیش ساڑھے3 سو چھوٹی بڑی مساجد پر قبضہ کرکے انہیں مندروں میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ سب سے اہم واقعہ ایودھیا میں بابری مسجد کا انہدام ہے، اس واقعے کو 26 سال گزر چکے ہیں، ہندو تنظیمیں اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرنا چاہتی ہیں لیکن مقدمہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہونے کے سبب ابھی تک رام مندر کی تعمیر ممکن نہیں ہوسکی۔ اب انتخابات کا موسم ہے تو بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا معاملہ پھر پھن پھیلا کر کھڑا ہوگیا ہے۔ ہندو تنظیمیں بڑی بڑی ریلیاں منعقد کررہی ہیں اور بی جے پی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ رام مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا کرے۔ مودی حکومت خود بھی رام مندر کے معاملے سے کھیلتی رہی ہے اور اب انتخابات کے موقع پر وہ پھر اپنے ووٹروں کو یقین دلا رہی ہے کہ عدالتی فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو، رام مندر کی تعمیر کا وعدہ ضرور پورا کیا جائے گا۔
سیکولر بھارت میں مسلم دشمنی ایک ایسا فیچر ہے جس کا مظاہرہ بھارت کے طول و عرض میں سال کے 12 مہینے جاری رہتا ہے۔ لیکن جب انتخابات آتے ہیں تو ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اس فیچر میں نئے رنگ بھرے جاتے ہیں۔ مثلاً اب کی دفعہ بھارت میں اسلامی شناخت رکھنے والے شہروں اور قصبوں کے نام تبدیل کرکے انہیں ہندو شناخت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اترپردیش کے مشہور تاریخی شہر الٰہ آباد (جسے اکبرالٰہ آبادی اور علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل تھی) کا نام پریاگ تجویز کیا گیا ہے۔ جب کہ مزید 25 شہروں کے ہندوانہ نام تجویز کیے گئے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تھی اس کی مسلم شناخت ختم کرنے کی تجویز بھی ہندو تنظیموں میں تیزی سے گردش کررہی ہے، اس کے ساتھ ہی سرسید کا نام اور ان کی تصویر بھی یونیورسٹی سے ہٹانے کا مطالبہ اُٹھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یونیورسٹی کی لابی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے پر بہت ہنگامہ ہوچکا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ بھارت میں انتخابی بخار کا نتیجہ ہے لیکن یہ محض آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ بھارت برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد سے مسلم دشمنی کی آگ میں جل رہا ہے، اگر اس کی قیادت نے سوجھ بوجھ سے کام نہ لیا تو یہ آگ اسے بھسم کرکے رکھ دے گی۔