نیب بھی احتساب کی زد میں

172

سپریم کورٹ نے حکومت کو نیب قوانین میں تبدیلی کے لیے فروری کے پہلے ہفتے تک مہلت دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے دی گئی مہلت میں درکار ترمیم نہ کی تو سپریم کورٹ خود فیصلہ کرے گی ۔ سپریم کورٹ نے یہ سخت ریمارکس جمعرات کو نیب کے رضاکارانہ واپسی کے قانون پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران دیے ۔ سپریم کورٹ کا بالکل درست اور دوٹوک موقف ہے کہ لوٹی گئی رقم میں سے کچھ فیصد کی رضاکارانہ واپسی جسے نیب پلی پارگین کا نام دیتا ہے ، سے کرپشن کے خاتمے کے بجائے کرپشن کا فروغ ہورہا ہے ۔ یہ اس محاورے کے مصداق ہے کہ لے کے رشوت پھنس گیا ، دے کے رشوت چھوٹ جا۔ نیب کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو کرپشن فری بنائیں گے مگر نیب کا طرز عمل تو اس کے بالکل برخلاف ہے ۔ ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ نیب جو بھی بڑا کیس بناتی ہے ، اس میں آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔ یا تو کیس اتنا بودا ہوتا ہے کہ عدالت میں ثابت ہی نہیں ہوپاتا یا پھر پلی بارگین ہوجاتی ہے ۔ پھر جو رقم نیب پلی بارگین میں وصول کرتی ہے اس میں نیب افسران کا سرکاری طور پر کمیشن بھی ہوتا ہے اور یوں سرکار یا عوام کو اس ڈرامے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوپاتا ہے ۔ سینہ گزٹ میں یہ بات عام ہے کہ نیب افسران خود بھاری کرپشن میں ملوث ہیں ۔ عدالت سب کے اثاثے تو چیک کرتی ہے اور پوچھتی بھی ہے کہ آمدنی سے زاید اثاثے کس طرح وجود میں آئے ۔ اتنی کم آمدنی میں یہ اللے تللے کیوں اور کیسے ۔ تاہم یہ بھی المیہ ہے کہ اس طرح کی پوچھ تاچھ کبھی نیب کے افسران یا عدالتی اہلکاروں اور ججوں سے نہیں کی گئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اصل میں یہ ہی ادارے مقدس گائے ہیں جنہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی کرپشن کے بڑھتے ہوئے ناسور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ سراج الحق نے بجا طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان میں حقیقی احتساب ہوگیا تو ایوان خالی اورجیلیں بھر جائیں گی ۔ نیب خود احتساب کے قابل ادارہ بن گیا ہے۔ سراج الحق نے بالکل درست مطالبہ کیاہے کہ احتساب بلا امتیاز کیا جائے ۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے کہ احتساب بلا امتیاز اور بے لاگ ہونا چاہیے ۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج پہلے بھی اس امر کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں کہ پلی بارگین کا قانون انصاف کے خلاف ہے ۔ پلی بارگین کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ مجرم نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے ۔ قبول جرم کے بعد مجرم کو سزا دینی چاہیے نہ کہ اسے معاف کرکے دوسرے مجرموں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ سپریم کورٹ کی مذکورہ ہدایت کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو کام حکومت کو کرنا چاہیے وہ کام سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکومت کا بنیادی وظیفہ ہی یہ ہے کہ عمال حکومت دیانتداری اور اپنی پوری استعداد کے ساتھ عوام اور ریاست کی خدمت کریں ۔ اب جبکہ کوئی محکمہ اس وبا سے نہیں بچ سکا ہے تو اس کے بارے میں مناسب قانون سازی کرنے کے بجائے لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے ۔ سپریم کورٹ کو مجبور ہو کر تنبیہہ کرنا پڑی ہے کہ اگر مقررہ مدت میں قانون سازی نہ کی گئی تو سپریم کورٹ خود کسی بھی قانون کو ساقط کرنے کا اختیار استعمال کرنے پر مجبور ہوگی ۔ اگر سپریم کورٹ کو یہ اختیار استعمال کرنا پڑا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت اب قانون سازی بھی نہیں کرسکتی یا پھر یہ بدعنوان عناصر کی پشتیبان ہے ۔ دونوں صورتیں ملک کے لیے کہیں سے بھی اچھی تصویر پیش نہیں کرتیں ۔