آصف زرداری اور نواز شریف خاندان کا مستقبل !

244

ملک کے بیشتر نامور سیاستدانوں کا اصل روپ اگر کوئی دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ اسلام آباد میں نواز شریف کے گارڈ کے ہاتھوں سماء ٹی وی کے کیمرہ مین پر بے دردانہ تشدد کے فوری بعد سابق و نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کی موقع سے جاتے وقت کی وڈیو دیکھ لے۔ اس وڈیو میں نظر آجائے گا انسانیت سے محبت کے دعوے کرنے والا یہ لیڈر کس حد تک سخت دل اور بے حس ہے۔ اپنے ساتھی پر تشدد پر دیگر کیمرا مین چیختے چلاتے ہوئے نواز شریف کی توجہ زمین پر بے ہوش پڑے کیمرا جرنلسٹ جمال کی طرف دلانے لگے تو نواز شریف انتہائی بے حسی یا کسی بہرے اور اندھے شخص کی طرح گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ نواز شریف کا یہ رویہ ہی ان کی عام انسانوں سے نفرت کی عکاسی کررہا تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ قوم ایسے بے حس سیاست دانوں کو دیکھنے کے باوجود کب تک ان کے پیچھے دوڑتی رہے گی؟
جو سیاستدان کسی بھی سیٹ پر نہ ہونے کے باوجود ایک ٹی وی جرنلسٹ پر سرعام تشدد پر انجان بن سکتا ہے وہ سیٹ پر بیٹھ کربہت کچھ کرسکتا ہے بلکہ کیا بھی ہوگا!یہ سچ ہے کہ نواز شریف اسی دور کے سیاستدان ہیں جس میں ملک و قوم اور جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔ یہ لوگ جعلسازی دھوکا دہی اور جھوٹ کو سیاست سے منسوب کیا کرتے ہیں۔
اسی دور میں اپنے آپ کو سیاست کے چیمپئن سمجھنے والے مبینہ بزدل اور ڈرپوک آصف زرداری بھی ہیں جو 2015ء میں جذبات میں’’اینٹ سے اینٹ‘‘ بجانے کی بات کرنے کے بعد چند روز بھی ملک میں نہیں ٹھیر سکے تھے اور جب تک اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنی ملازمت سے ریٹائرڈ نہیں ہوگئے وہ واپس ملک نہیں آسکے یا آئے اور جب آئے تو انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات سے ہی انکار کردیا تھا۔
اس کے باوجود انہوں نے چند روز قبل پھر دوبارہ اُلٹی سیدھی باتیں کیں، اُلٹی سیدھی اس لیے کہ وہ واضح نہیں تھی کہ کس کے لیے وہ یہ سب کچھ بول رہے ہیں۔ حیدرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران آصف علی زرداری نے کسی کا نام یا منصب کے ذکر کے بغیر کہا کہ جن کی مدت ملازمت تین سال ہے وہ قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ طاقت صرف پارلیمان کے پاس ہے۔ آپ کا اس سے کیا تعلق ہے؟ آپ کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘‘
سب ہی لوگ آصف زرداری کے لہجے میں آنے والی اس تبدیلی کو محسوس کررہے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آصف زرداری اور میاں نواز شریف کو یقین ہونے لگا ہے کہ اب ہر کرپٹ شخص کے سخت احتساب کے دن آگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں سیاسی کھلاڑی اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں بیرونی ممالک سے بھی مدد لینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
آصف زرداری کے لہجے میں آنے والی ترشی دراصل ان کے خلاف چلنے والی نیب کی انکوائری کی رپورٹ ہے جو 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں پیش کی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق کرپشن اور منی لانڈرنگ کے معاملات پر کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہوچکا ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں عدالت آصف زرداری ہی نہیں بلکہ ان کی بہن فریال تالپور اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی گرفتاری کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ لیکن خیال ہے کہ آصف زرداری کو بھی یقین ہے کہ وہ جیل جانے سے بچ نہیں سکیں گے۔ یاد رہے کہ آصف زرداری کے دوست انور مجید پہلے ہی نیب کے مقدمے میں گرفتار ہیں۔ جب کہ ان کے ایک اور دوست ڈاکٹر عاصم نیب زدہ ہوچکے ہیں۔
قوم کی خواہش ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کو نہ صرف گرفتار کیا جانا چاہیے بلکہ انہیں سخت سزائیں دے کر کم از کم ’’سیاست بدر‘‘ کردینا چاہیے، جیسے میاں نواز شریف ہوچکے ہیں۔ جب تک کرپٹ بااثر عناصر گرفتار ہوکر سخت سزائیں نہیں پائیں گے اس وقت تک لوگوں کو احتساب کی باتوں پر بھی یقین نہیں آئے گا۔ بہرحال اومنی گروپ کے خلاف جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں آصف زرداری اور مراد علی شاہ کی گرفتاری ہوئی تو اس بات کا امکان ہے کہ نہ صرف پیپلز پارٹی کا واپسی کا سفر شروع ہوجائے گا بلکہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور سندھ اسمبلی کو معزول کرکے یہاں گورنر راج بھی نافذ کرسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ کہا جاسکے گا کہ ملک میں پہلی بار بیک وقت سیاست کے دو چیمپئن خاندان کرپشن کے مقدمات میں اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ لیکن انصاف کا تقاضا تو یہ ہوگا ہر بدعنوان شخص کا احتساب کیا جائے، چاہے وہ وزیراعظم کا دوست ہو یا رشتے دار یا کوئی حکومتی شخصیت۔ ایسا ہوا توملک سے کرپشن کا خاتمہ سالوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ہوجائے گا۔