پاکستان کی تاریخ میں دسمبر بہت تلخ مہینہ ہے‘ سقوط ڈھاکا دسمبر میں ہی ہوا‘ یہ زخم کیا کم گہرا تھا کہ پاکستانی قوم کو دسمبر کے مہینے میں ہی ملکی سیاست کے ایک درخشندہ ستارے بے باک‘ایمان دار‘ جرأت مند رہنما جناب پروفیسر غفور احمد کی رحلت کا غم بھی سہنا پڑا‘ کچھ لوگ اور شخصیات واقعی حقیقی معنوں میں نایاب اور انمول ہوتی ہیں‘ جو کسی کا خواب بھی ہوتے ہیں اور کسی کے لیے زندگی کا ماڈل بھی‘ پروفیسر غفور احمد پاکستان کے لیے سوچنے‘ اسلام پر مرمٹنے اور تاج دار مدینہ کی لاج کے رکھوالے بھی تھے اور ایسے لوگوں کے لیے ماڈل بھی‘ جو اس ملک میں ریاست مدینہ جیسی حقیقی زندگی اور سچا کھرا معاشرہ دیکھنے کے متمنی ہیں۔ وہ 1927 میں پیدا ہوئے اور دسمبر 2012 میں اپنا شاندار بے مثال سماجی‘ انسانی، سیاسی‘ ملی اور دینی کردار ادا کرنے کے بعد اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اللہ کی مخلوق میں ممتاز تعارف رکھتے، کبھی اپنے خالق سے غافل نہ ہوئے‘ محفل میں دوسروں کی بات حوصلے کے ساتھ سنتے اور ٹوکتے نہیں تھے، ان کی خوبی تھی کہ آزادی اظہار رائے کا بہت احترام کرتے تھے، حسن و اخلاق اور صوفیانہ طریق کی وجہ سے ان کے عہد کی ممتاز سیاسی شخصیات ان کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ اللہ نے انہیں بہت اعلیٰ اخلاق اور سادگی عطا کی تھی۔ پروفیسر صاحب نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم کام کیا سیاست میں آئے تو پہلی بار1958 میں جبر کے ماحول میں کراچی میونسپلٹی کے رکن منتخب ہوئے‘1970 میں کراچی سے قومی اسمبلی کے لیے رکن منتخب ہوئے‘ 2002 میں انہیں مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے ان کے بے داغ سیاسی کردار کی وجہ سے جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے اپنا امیدوار تسلیم کرتے ہوئے سینیٹ کا رکن منتخب کرایا۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو آخری دم تک اسی کے ساتھ رہے سیاسی لحاظ سے ملک کے لیے ان کی بے شمار اور ان گنت سیاسی اور سماجی خدمات ہیں۔ 1973 کے دستور میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانا اور اسلامی دفعات شامل کرانا اور ولی خان جیسے رہنماؤں سے بھی اس کی تائید حاصل کرنا‘ پروفیسر غفور احمد کا ہی کمال تھا‘ بھٹو کے خلاف انتخابات میں جب پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل ہوئی تو اس کے مرکزی رہنماؤں میں شامل ہوئے اور پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے‘ پروفیسر غفور اسلامی جمہوری اتحاد کے بھی سیکرٹری جنرل رہے‘ بھٹو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی پاکستان قومی اتحاد کی لیڈر شپ نے انہیں نواب زادہ نصرا للہ خان‘ مولانا مفتی محمود کے ساتھ تین رکنی ٹیم میں شامل کیا گیا، بھٹو کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے امین تھے اور اپنی کتاب میں اس کا احوال بیان کرچکے ہیں‘ بہت ہی عمدہ سیاسی کارکن تھے‘ اور بھٹو کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے موضوع پر اپنی کتاب میں انہوں نے اپنی تحریر سے ثابت کیا، انہیں نرم الفاظ میں سخت بات کرنے اور لکھنے کا سلیقہ اور فن بھی آتا ہے‘ جس سیاسی کارکن نے ان کی کتاب مطالعہ نہیں کی وہ کبھی سیاسی تاریخ پر بات کرنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا ‘ مارشل لا حکومت نے انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے کارکن کابینہ میں شامل کییقومی اتحاد کے فیصلے کے مطابق ضیا دور میں کابینہ میں شامل ہوئے اور وزارت پیدا وار کا قلم دان سنبھالا‘ اورخوب کام کیا مگر مراعات خود لیں نہ کسی کو دیں‘ جماعت اسلامی نے انہیں کابینہ میں بھیجا تھا‘ جماعت اسلامی نے واپس آنے کے لیے کہا تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فیصلے کی اطاعت کرتے ہوئے وزارت کا منصب چھوڑ دیا‘ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیا الحق کا دور عروج پر تھا، اگرچہ دائیں بازو والے سیاسی کیمپ کے لوگ مطمئن تھے کہ انہیں بھٹو دور سے نجات ملی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ بھٹو کے مقابلے میں ضیا کا دور ان کے لیے میٹھی چھری ثابت ہوا ضیا الحق نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جہاں کچھ اقدامات اٹھائے وہیں دینی جماعتوں کو سیاسی نقصان بھی پہنچایا‘ ان کا سیاسی اثر و روسوخ ختم کرنے کے لیے انہیں توڑنے کی کوشش بھی کی‘ پروفیسر غفور احمد سے ان کی توقع تھی کہ وہ جماعت اسلامی میں الگ گروپ بنائیں، ایک بار تو گورنر فضل حق نے اس کا اظہار بھی کیا لیکن انہیں ایسا منہ توڑ جواب ملا کہ دوبارہ ضیا الحق حکومت کے کسی عہدیدار کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ پروفیسر غفور احمد سے اس طرح کی بات کرے، انہوں نے اپنے کھلے شفاف اور بے داغ سیاسی کردار سے یہ ثابت کیا کہ وہ دیوار کے اس پار ہوں یا اس پار‘ دونوں جگہ ایک ہی کردار رکھتے ہیں، آج کے سیاسی رہنماؤں کی طرح نہیں کہ اندھیرے میں ملاقاتیں کرتے ہیں اور اُجالے میں عوام کی بات کرتے ہیں، پروفیسر غفور احمد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جماعت اسلامی کا ہر کارکن اس بات کا جائزہ لے کہ وہ کیوں پروفیسر غفور احمد نہیں بن سکا‘ ان میں مطالعے کی عادت اور کام کی پختہ منصوبہ بندی ان کی زندگی کا خاصا رہی ہے، وہ اس قدر کام کرتے تھے کہ بلاشبہ وہ قائد تھے‘ ہمت والے تھے‘ بہادر تھے اور انہیں کچرا چننے والے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے بھی سوچتے تھے۔ نونہالوں کو مستقبل کے معمار سمجھتے تھے، وہ اس ماحول اور سماج کے خلاف تھے جو سماج اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے وہ کھرے پن اور اپنے اُجلے کردار کے باعث سیاسی کارکن تو تھے ہی لیکن اصل میں اسلام کے سپاہی اور ندائے پاکستان تھے اقبال سے ان کو عشق تھا اور اقبال کے کلام کے حقیقی پیغام کو وہ سمجھتے تھے۔
وہ عالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
با وقار شخصیت میں سادگی کا عنصر غالب رہا‘ لباس بھی سادہ پہنا اور رہن سہن بھی سادہ رہا جہاں بھی رہے وہ گلیاں آج بھی انہیں یاد کرتی ہیں حسین یادیں ہیں کہ ہر دم تازہ رہتی ہیں مطالعہ کا انہیں بہت شوق تھا گھرمیں بچوں اور بڑوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے اب المیہ یہ ہے کہ ہمارامعاشرہ کتب پرور نہیں رہا اور ہم اسے اہمیت نہیں دے رہے لیکن اب اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے ہیں ہماری زندگیوں میں ٹھہراؤ، تحمل اور برداشت کا سلسلہ رک سا گیا ہے اب کسی کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دینا اور دکھ سکھ بانٹ لینا خوبی نہیں سمجھی جاتی روپے پیسے کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی، لیکن اب کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے اس کو قبلہ و کعبہ بنا لینا غالباً بیس پچیس سال پہلے شروع ہوا، روپے پیسے کمانے میں ایسے لگے کہ اپنے بچوں کو نہ اچھا بچپن دے پارہے ہیں اور نہ ہی اچھی شخصیت‘ کسی بھی انسان کی شخصیت کی تعمیر میں صرف گھر والوں کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خاندان کے کتنے ہی بڑوں، گلی اور آس پڑوس کے کتنے ہی ماموں، خالہ، چچا اور دادا، نانی جیسے کرداروں نے اہم کردار رہا‘ گلی کے ہر بڑے کو حق حاصل تھا کہ وہ بچوں اور بڑوں کو ہر غلط بات پر ٹوکیں اور ان کو اچھے برے کی تمیز کرانے میں ان کی مدد کریں متوسط طبقے نے پیسے کمانے کے چکر میں اپنی روایات کو چھوڑ دیا اب ایسی ہوا چلی ہے کہ اچھے اور مضبوط رشتوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگا ہے۔ نفسا نفسی ہے‘ کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہ رہا۔ یقیناًبڑوں کے دم سے بھی گھروں میں رونق ہوتی ہے اور بڑوں کے دم سے ہی گھر میں دیگر رشتے داروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اب وہ کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں ان کی مزاج پرسی کو کوئی نہیں آرہا اب یہ سب باتیں پیسا کمانے کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں۔
ان کی اولاد آج بھی اس بات پر فخر کرتی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ان جیسا والد عطا کیا جب وہ کبھی اندرون ملک یابیرون ملک دوروں کے بعد دیر کے بعد گھر پہنچتے تو ان کے بچے انہیں گھیر کر بیٹھ جاتے‘ وہ بچوں کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے ،جماعت اسلامی کو ایک عوامی مگر دینی اقدار کی بنیاد پر مقبول جماعت بنانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ جماعت اسلامی کو اخلاقی معیار کی ایک قوت بننا چاہیے اور سیاسی کامیابی اصل ہدف نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی جدوجہد نصف صدی پر محیط ہے وہ ملک کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرکے ایک فلاحی اسلامی ریاست کا مرکز وفاق اور شریعت کا نفاذ چاہتے تھے، ان کا ایجنڈا تھا کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی سید ابولاعلیٰ مودودیؒ اور دیگر اکابرین کے وژن کے مطابق اخلاقی روحانی تربیت کریں، وہ سیاسی طور پر جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی جماعت بنانا چاہتے تھے، ان کا ہر لمحہ، ہر سانس پاکستان اور اسلام کی محبت کے لیے تھا، محروم طبقات کو تقویت دینے کے لیے اپنا ہر لمحہ صرف کرتے تھے وہ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے، اقلیتوں کے بھی ترجمان بن گئے تھے، ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ وہ اُمت مسلمہ کے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر تھے۔ وہ بلند نگاہ، دلنواز سخن اور پرسوز جان رکھتے تھے۔ وہ اتحادِ اُمت کے حقیقی معنوں میں علمبردار تھے۔
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں‘ نظر میں‘ ازان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں