جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم مذہب پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ’’عقل کُل‘‘ جسٹس ثاقب نثار نے آبادی میں اضافے کے حوالے سے گفتگو کی تو خورشید ندیم کو خیال آیا کہ ضبط ولادت کے سماجی مسئلے کو مولانا مودودی نے ’’مذہبی مسئلہ‘‘ بنادیا ہے۔ چناں چہ خورشید ندیم صاحب نے ’’یہ مذہبی نہیں سماجی مسئلہ ہے‘‘ کے عنوان سے ایک عدد کالم تحریر فرمادیا۔ ان کے کالم کا اہم ترین اقتباس یہ ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’ہمارا مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ ہم ہر معاملے کو مذہب کی نظر سے دیکھتے ہیں حالاں کہ خود مذہب نے بھی ہم سے یہ مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ اس کا کہنا تو یہ ہے کہ عقل کی صورت میں، اللہ تعالیٰ نے تمہارے وجود میں ایک چراغ جلادیا ہے۔ معاملاتِ زندگی میں اسی سے روشنی پاؤ۔ مذہب کی اصل دلچسپی تمہارے اخلاقی وجود کے ساتھ ہے۔ اس کی تطہیر اور تزکیے کے لیے پیغمبر ہی رہنمائی کریں گے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار کھجوروں کی کاشت کے باب میں نبیؐ نے ایک بات کہی۔ لوگوں نے اس کو اختیار کرلیا۔ اتفاق سے اُس بار فصل اچھی نہ ہوئی۔ آپؐ کو معلوم ہوا تو آپ نے توجہ دلائی کہ امورِ دنیا (زراعت وغیرہ) تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ (مسلم)۔ یہ لطیف انداز میں متوجہ کرنا تھا کہ زندگی کا ہر معاملہ مذہبی نہیں ہوتا۔ پیغمبر کاشت کاری یا تجارت سکھانے نہیں آتا۔ وہ تو کاشت کار اور تاجر کے اخلاقی تزکیے کے لیے آتا ہے۔ وہ کاشت کاری کرے یا تجارت، اس میں بے انصافی ہونی چاہیے نہ کسی کی حق تلفی‘‘۔ (روزنامہ دنیا۔ 8 دسمبر 2018ء)
جامعیت زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے اور انسان کی فکری تاریخ میں جامعیت کا حصول ہمیشہ انسان کا مطلوب رہا ہے۔ افلاطون کا فکری نظام سوا دو ہزار سال پرانا ہے مگر افلاطون اپنی فکری گہرائی اور ’’جامعیت‘‘ کی وجہ سے آج بھی زیر بحث ہے۔ افلاطون کا شاگرد ارسطو مابعد الطبیات ہی نہیں طبیعات کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ شاعری کی بحث ہو یا المیے کی۔ طربیے کا ذکر ہو یا سیاسیات کا۔ ارسطو کا حوالہ ضرور آتا ہے۔ اس کی وجہ بھی ارسطو کی جامعیت ہے۔ کلاسیکی فلسفے میں ہیگل کا ذکر بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور ہیگل کا سب سے بڑا وصف یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے ایک جامع فکری یا فلسفیانہ نظام وضع کرکے دکھایا۔ کارل مارکس نے جدلیاتی مادیت کے تصور کے ذریعے پوری انسانی تاریخ کی تشریح کرکے دکھادی اور اس کے مرکزی تصورات پوری انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی پر بھی غالب ہوگئے۔ مارکس شاعر تھا نہ ادیب مگر اس کے خیالات کا اطلاق ادب پر بھی کیا گیا۔ یہاں تک کہ سابق سوویت یونین میں جو سائنس پیدا ہوئی اسے صرف سائنس نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سوویت سائنس یا سوشلسٹ سائنس کہا جاتا تھا۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم کا قصہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم نے جو دنیا تخلیق کی ہے اس کے دائرے میں ہر چیز سیکولر اور لبرل ہے، ریاست بھی، سیاست بھی، معیشت بھی، معاشرت بھی، آرٹ بھی، کلچر بھی، فلسفہ بھی، موسیقی بھی۔ سوال یہ ہے کہ بیچارے اسلام نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ صرف وہی ’’جامع‘‘ نہیں ہوسکتا؟۔ حالاں کہ وہ خالق کائنات کا پسندیدہ دین ہے اور خالق کائنات نے خود کہا ہے کہ ہم نے دین کو مکمل کردیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ انسانوں کے فکری نظام تو جامع ہیں مگر اللہ کا دیا ہوا نظام جامع نہیں ہے۔
غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید کا بنیادی تصور یہ ہے کہ دین صرف عقاید، عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے۔ چناں چہ ہمیں انہی دائروں میں دین سے رجوع کرنا چاہیے۔ آپ کو لگ رہا ہوں گا کہ خورشید ندیم نے صرف دین اور سماجی مسئلے کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہے، باقی دیگر معاملات میں وہ دین سے رجوع کے قائل ہوں گے، ایسا نہیں ہے۔ ابھی وہ ضبط ولادت کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ یہ مذہبی نہیں سماجی مسئلہ ہے، آپ ریاست اور سیاست کے حوالے سے دین کی بات کریں گے تو وہ کہیں گے یہ تو ریاستی اور سیاسی مسئلہ ہے بھلا دین کا اس سے کیا تعلق؟ آپ سود کا ذکر چھیڑیں گے تو وہ فرمائیں گے یہ تو معاشی مسئلہ ہے۔ بھلا اس کا دین سے کیا تعلق۔ آپ شادی اور دین کو باہم مربوط کریں گے تو وہ کہیں گے شادی تو ایک جبلی یا جنسی مسئلہ ہے، بھلا اس کو دین سے کیا لینا دینا۔ حالاں کہ ہر علم رکھنے والا جانتا ہے کہ قرآن و سنت سے ہمیں زندگی کے ہر دائرے کے بارے میں رہنمائی دستیاب ہے۔ ریاست کے بارے میں بھی، سیاست کے بارے میں بھی، معیشت کے بارے میں بھی، شاعری کے بارے میں بھی، ادب کے بارے میں بھی، کلچر کے بارے میں بھی، علوم کے بارے میں بھی، فنون کے بارے میں بھی۔ دیکھا جائے تو دین کی غیر جامعیت کا تصور مغرب کی ایجاد ہے ورنہ امت مسلمہ گزشتہ چودہ سو سال سے دین کو جامع سمجھتی آرہی ہے اور نہ صرف سمجھتی آرہی ہے بلکہ اسے اپنی تاریخ کے طویل سفر میں جب بھی موقع ملا ہے اس نے دین کو پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر نافذ بھی کرکے دکھایا ہے۔ مگر غامدی صاحب ہوں یا ان کے شاگرد وہ مان کر ہی نہیں دیتے کہ وہ زیر بحث موضوع کے حوالے سے پاکستان میں مغرب کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان میں پاکستان کے اسلامی ہونے کی بحث شروع ہوتی ہے تو سیکولر اور لبرل عناصر قائد اعظم کی صرف ایک تقریر نکال کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھیے اس تقریر میں قائد اعظم نے فرمایا ہے کہ پاکستان کے شہری مسجد جانا چاہیں تو مسجد جانے میں آزاد ہیں، مندر جانا چاہیں تو مندر جانے میں آزاد ہیں، گرجا گھر جانا چاہیں تو انہیں گرجا گھر جانے کی آزادی میسر ہے۔ قائد اعظم کی تقریر کا بھی ایک مذہبی پس منظر ہے مگر چلیے اس تقریر میں واقعتاً قائد اعظم نے سیکولر ازم کی حمایت کی ہوگی لیکن قائد اعظم کی سو سے زیادہ تقاریر، بیانات اور انٹرویوز ایسے ہیں جن میں انہوں نے پاکستان اور اسلام کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ مگر سیکولر اور لبرل حضرات ان سو حوالوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ کہتے ہیں مکھی کی فطرت ہے کہ وہ پورے جسم کو چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے۔ کچھ ایسا ہی قصہ دین کی جامعیت کے منکروں کا بھی ہے۔ دین کی جامعیت کے حوالے سے پورے قرآن اور ہزاروں احادیث کی طرف وہ دیکھتے ہی نہیں، مثال لاتے ہیں تو صرف ایک اور وہ یہ کہ ایک بار حضور اکرمؐ نے کھجوروں کی کاشت کے حوالے سے ہدایت دی اور فصل اچھی نہ ہوئی تو لوگوں سے فرمایا کہ تم یہ کام خود اچھی طرح جانتے ہو، تم جیسے چاہو کھجوریں کاشت کرو۔ چلیے غامدی صاحب اور ان کے شاگرد آزاد ہیں کہ اگر انہیں کبھی کھجوریں کاشت کرنی پڑیں تو وہ اس سلسلے میں ’’اپنی عقل‘‘ استعمال کرلیں
مگر جن ہزاروں کاموں کے سلسلے میں قرآن و حدیث میں واضح رہنمائی موجود ہے اور جہاں رسول اکرمؐ نے کسی سے یہ نہیں فرمایا کہ تم چاہو تو اپنی پسند سے کام کرلو ان تمام کاموں کے سلسلے میں غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کو بہرحال اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔
خورشید ندیم نے زیر بحث اقتباس میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ خود مذہب بھی ہم سے ہر معاملے کو مذہبی نکتہ نظر سے دیکھنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ یہ اسلام پر لگایا جانے والا ایک بہت ہی بڑا الزام بلکہ بہتان ہے اس لیے کہ قرآن پاک صاف کہتا ہے اللہ کی اطاعت کرواور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ صرف عقاید، عبادات اور اخلاقیات میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اتفاق سے رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہؐ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ہر چیز امت کی رہنمائی کے لیے محفوظ کرلی گئی ہے۔ چناں چہ امت مسلمہ ہر دائرے میں صدیوں سے سیرت طیبہؐ کی پیروی کررہی ہے اور جہاں اس سے پیروی نہیں ہورہی وہاں وہ اس احساسِ جرم کا شکار ہے کہ وہ سیرت طیبہؐ کی پیروں کا حق کیوں ادا نہیں کررہی؟ حضور اکرمؐ نے ریاست بھی قائم کی اور سیاست بھی کی۔ جہاد بھی کیا اور معاہدے بھی کیے۔ تجارت بھی کی اور شادیاں بھی کیں۔ آپؐ شوہر بھی تھے اور والد بھی۔ آپؐ دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان آپؐ کے کردار کے ہر پہلو کے عاشق ہیں اور اسے زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غامدی صاحب اور خورشید ندیم صاحب صرف کھجور کاشت کرنے میں آزاد ہیں۔ رہی امت تو اسے اس سلسلے میں بھی آزادی مطلوب نہیں اس لیے کہ امت اس پورے واقعے کو کسی اور نظر سے دیکھتی ہے۔
غامدی صاحب اور ان کے شاگرد عقل، عقل بہت کرتے ہیں۔ زیر بحث کالم میں بھی خورشید ندیم صاحب نے فرمایا ہے کہ زندگی کے معاملات میں رہنمائی کے لیے عقل کافی ہے۔ علامہ اقبال غامدی صاحب سے ایک ہزار گنا اور خورشید ندیم سے ایک لاکھ گنا بڑے آدمی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ عقل کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
آہ یہ عقلِ زیاں اندیش کیا چالاک
اور تاثر آدمی کا کس قدر بیباک ہے
**
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقلِ انسانی ہے فانی زندۂ جاوید عشق
**
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
**
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
**
تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور
ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف
**
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
**
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفو
**
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
**
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
**
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
**
عقلِ بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
**
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفےٰ، عقل تمام بولہب
آئیے شمار کریں اقبال نے عقل پر کتنے الزامات لگائے ہیں۔ (1) عقل زیاں اندیش یعنی نقصان کے اندیشے میں مبتلا رہنے والی ہے۔ (2) عقل چالاک ہے۔ (3) عقل فانی ہے۔ (4) عقل کو تنقید سے فرصت نہیں۔ (5) عقل کی تقدیر میں حضور نہیں۔ (6) عقل پرستوں کا مقام اعراف ہے یعنی وہ نہ اِدھر کے ہیں نہ اُدھر کے۔ (7) عقل چراغ راہ ہے چراغ منزل نہیں ہے۔ (8) عقل عشق کا کام جانتی ہی نہیں۔ (9) عقل تماشائی ہے۔ (10) عقل عیار ہے۔ (11) عقل امامت کی مستحق نہیں۔ (12) عقل ابولہب ہے۔
اب بھلا بتائیے غامدی صاحب اور خورشید ندیم چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنی زندگی ایسی چیز کی رہنمائی میں بسر کریں جس پر اقبال نے ایک درجن الزامات لگائے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید کے علم اور فہم کا کیا عالم ہے؟ لیکن خورشید ندیم صاحب پریشان نہ ہوں۔ اقبال نے ایک شعر میں عقل کی تعریف بھی کی ہے۔
انہوں نے فرمایا ہے۔
پیدا ہے فقط حلقہ اربابِ جنوں میں
وہ عقل کے پاجاتی ہے شعلے کو شرر سے
اقبال کہہ رہے ہیں کہ وہ عقل محمود یعنی پسندیدہ ہے جو اہل جنوں کے حلقے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس عقل کی اہلیت یہ ہے کہ وہ شرر کو دیکھ کر شعلے کا فہم حاصل کرلیتی ہے۔ یعنی کمتر سے بہتر کو سمجھ لیتی ہے۔ اقبال کے اس شعر میں جنوں پر عشق بلکہ وحی کا سایہ ہے۔ مطلب یہ کہ اقبال کہہ رہے ہیں کہ جو عقل وحی کی بالادستی تسلیم کرتی ہے وہی اصل میں عقل ہے۔ اور اس عقل کا فہم غیر معمولی ہے۔ رہی غامدی صاحب اور خورشید ندیم صاحب کے مغرب کی عقل تو وہ مدتوں سے حلال و حرام کی بھی قائل نہیں بلکہ وہ آج کل مغرب کیا اہل مشرق کو بھی ہم جنس پرستی سکھارہی ہے اور تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلقات قائم کرنے کا درس دے رہی ہے۔