سانحہ 12 مئی کے مجرموں کی سرپرستی کیوں

181

سندھ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج نے سانحہ 12 مئی کے 11 مقدمات دوبارہ کھولنے کی ہدایت کرتے ہوئے ان پر عدالتی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کر دی ہے ۔ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران اُس وقت کے غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سندھ ہائی کورٹ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر بطور مہمان خصوصی مدعو تھے ۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بھرپور استقبال کا فیصلہ کیا تھا جبکہ آمر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے استقبال کو سختی سے کچلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے لیے جنرل پرویز مشرف نے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ کراچی میں اپنی اتحادی پارٹی ایم کیو ایم کی خدمات حاصل کی تھیں ۔ جنرل پرویز مشرف کی ہدایت کے عین مطابق چیف جسٹس افتخار چودھری کو ائرپورٹ سے باہر ہی نہیں آنے دیا گیا ۔ 12 مئی 2007 کو کراچی میں نئی تاریخ رقم ہوئی کہ کراچی کی ہر سڑک کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا گیا۔ جو بھی جسٹس افتخار چودھری کے استقبال یا دیگر معنوں میں عدلیہ کی بحالی اور پاکستان میں قانون کی بالادستی کے نام پر نکلا ، اسے سرکاری سرپرستی میں غنڈوں نے گولیوں سے بھون دیا ۔ اس خوں ریزی میں دن دہاڑے 48 افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا ۔ کئی سو افراد ذخمی ہوئے اور درجنوں گاڑیوں اور املاک کو نذر آتش کردیا گیا ۔ ٹی وی چینلوں پر اس دہشت گردی کی رپورٹنگ کو روکنے کے لیے ان کے دفاتر کا گھیراؤ کر لیا گیا ۔ آج ٹی وی کے دفتر پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس کی وڈیو کلپ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ کراچی بار ایسوسی ایشن نے اس دن کو سیاہ دن قرار دیا تھا ۔ آج بھی اسے بلیک سٹرڈے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خونیں واقعے کی پوری طرح سے تحقیقات کی جاتی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تاہم ایسا نہیں کیا گیا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دورحکومت کے خاتمے کے بعد زرداری دور حکومت آیا تو امید بندھی تھی کہ سانحہ 12 مئی کے کرداروں کو بے نقاب کیا جائے گا اور اصل مجرموں کے ساتھ ساتھ ان کے آلہ کاروں کو بھی مثالی سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوسکے ۔ سانحہ 12 مئی کے بعد سے سندھ میں پیپلزپارٹی کا مسلسل تیسرا دور حکومت ہے ۔ 12 مئی کو پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن سمیت دیگر کارکنوں پر براہ راست فائرنگ کی گئی تھی مگر پیپلزپارٹی کی حکومت بوجوہ 12 مئی کے سانحے کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ سندھ حکومت کی اس سلسلے میں سنجیدگی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس نے سانحہ 12 مئی کے 65 مقدمات ہی اے کلاس کردیے تھے ۔ یعنی انہیں اندھے مقدمات قرار دے کر ان پر مزید کارروائی ہی بند کردی گئی تھی ۔ سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کے منتظم جج کو ان اے کلاس مقدمات کا دوبارہ سے جائزہ لینے کا حکم دیا تھا جس کے بعدانسداددہشت گردی عدالت کے منتظم جج نے 11 مقدمات کو دوبارہ سے کھولنے اور ان پر سماعت شروع کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ ان مقدمات میں میئر کراچی وسیم اختر سمیت 11 ملزمان نامزد ہیں ۔ یہ سارے ملزمان 11 سال سے زاید عرصہ گزرنے کے باوجود اس لیے آزاد ہیں کہ ابھی تک ان مقدمات کی کارروائی ہی شروع نہیں ہوسکی ہے ۔ پاکستان کی کچھ یہ روایت ہی بن گئی ہے کہ مملکت خداداد کے ساتھ چاہے جو کھلواڑ کرلیا جائے ، اسے کچھ نہیں کہا جائے ۔مٹی پاؤ کو سرکاری پالیسی کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر سقوط مشرقی پاکستان تک یہی رویہ ہے ۔ مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے کیس اندھے کیسوں میں شمار نہیں ہوتے مگر مٹی پاؤ کی نذر کردیے گئے ۔ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سانحہ 12 مئی کے کیس دوبارہ کھلنے سے امید بندھی ہے کہ قومی مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ زندہ قومیں تو آزادی ملنے کے کئی سو برس کے بعد بھی مقدمہ چلا کر مردہ مجرموں کو علامتی سزا ئیں دے ڈالتی ہیں ۔