بھارت کو آرمی چیف کا صائب مشورہ

277

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دوستی کی پیشکش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ جنگیں تباہی اور موت لاتی ہیں لیکن اتنی تباہی کے باوجود ہم ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے۔ انہوں نے بھارتی حکومت کو درست مشورہ دیا ہے کہ پہلے بھوک کے خلاف جنگ کرے۔ آرمی چیف نے شکوہ کیا ہے کہ ہم غیر اعلانیہ جنگ کی دہشت گردی اور تباہی سے نکلے نہیں تھے کہ تخریبی مرحلہ شروع ہوگیا نئے خطرات کے کردار ہمارے اپنے ہیں۔۔۔ انہوں نے کہا میڈیا ، فکری محاذ سائبر اسپیس میں بھی دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا لیکن اس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ نہایت قابل غور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیشتر افراد مذہب یا سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ ہوئے۔ تاہم ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمیں بہتر بیانیہ پیش کرنا ہوگا۔ پاک فوج نے بھارت کو نہایت صائب مشورہ دیا ہے اور یہ بھی درست کہا ہے کہ جنگیں تباہی لاتی ہیں۔ تاہم پاکستان جس غیر اعلانیہ جنگ سے طویل عرصے سے نبرد آزما ہے اس میں دشمن واضح نہیں ہے جنگ کی طرح دشمن بھی غیر واضح ہے لیکن اس غیر واضح اور ان دیکھے دشمن کے خلاف انسداد دہشت گردی کی جنگ میں جتنے بھی لوگ نشانہ بنے وہ اپنے ہی تھے۔ خواہ وہ بھارت کے لیے کام کرنے کے ملزم ہوں یا افغانستان کے کسی دھڑے سے ان کا تعلق ہو۔۔۔ خال خال ہی کوئی غیر ملکی ہتھے چڑھا ہے یا اس کو نشانہ بنایا گیا۔ حالانکہ پاکستان کا قریب ترین دشمن بھارت ہے اس کو پہچاننا بھی مشکل نہیں اس کے ایک ایجنٹ کلبھوشن یادو کو پکڑا ہوا ہے لیکن اس کے بارے میں کارروائی کا عمل سست ہے۔ بھارت کے مقامی ایجنٹوں کو بھی اب تو اچھی طرح پہچانا جاچکا ہے لیکن ان ایجنٹوں کو اب تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ اس بات پر تو اب سب ادارے متفق ہیں کہ الطاف حسین پاکستان دشمن اور بھارت کے ایجنٹ ہیں لیکن ان کے خلاف اب تک کیا ہوا ہے اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ جس آدمی کو بھارت کا ایجنٹ قرار دینے پر سب متفق ہیں اس کے نامزد افراد اسمبلیوں کے رکن ہیں، سینیٹ میں بیٹھے ہیں، وزارت سنبھالے ہوئے ہیں، میئر ہیں، سیاسی جماعت بنا کر گھومتے پھر رہے ہیں، نہ انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔۔۔ پھر یہ اپنے کردار تخریبی کام تو کریں گے۔ بعض تخریبی کرداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں سیاسی ادارے خود تخلیق کرتے ہیں پھر کسی وقت ان کا حشر بھی الطاف حسین جیسا کردیا جاتا ہے۔ یہ بے نشانہ بے چہرہ جنگ تو نہیں یہ سارے لوگ تو سامنے ہیں۔ وہ تقریر و تصویر پر پابندی تو مسئلے کا حل نہیں، راکھ کے نیچے کیا کچھ جمع ہے اس کا کچھ پتا ہے؟ ایک تقریر آگ لگا سکتی ہے تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ایک اہم بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے شکایت تو بجا ہے لیکن یہ بات بڑی قابل فکر ہے کہ آرمی چیف کہتے ہیں کہ لوگ مذہب کے ذریعے گمراہ ہوئے۔ ارے مذہب کے ذریعے تو لوگ راہ راست پر آتے ہیں۔ یہ خبر جاری کرنے والوں نے الفاظ کا انتخاب درست نہیں کیا یا ان کے ذہن میں بھی مذہب کے بارے میں یہی تصور ہے۔ مذہب نے کب اور کہاں دہشت گردی کی تعلیم دی ہے۔ اس معاملے پر تو ملک بھر کے علمائے کرام کو بہت کھل کر بات کرنی چاہیے اگر پاک فوج کے سربراہ تک یہ سوچ پہنچی ہے کہ مذہب لوگوں کو گمراہ کرکے دہشت گرد بناتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مذہب کے خلاف ہی کارروائی ہوگی کیونکہ اب جنگ کے یہی میدان رہ گئے ہیں پاکستان بھارت، امریکا یا افغانستان سے تو لڑ نہیں سکتا۔۔۔ یا لڑنا نہیں چاہتا۔۔۔البتہ افغانستان میں طالبان نے جنگ لڑ کر امریکا کو بھگا دیا۔ پاکستان میں ساری جنگ کا نشانہ اپنے بنے۔۔۔ اسے ہم قربانی تصور کرتے ہیں۔ جناب باجوہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں بہتر بیانیہ پیش کرنا ہوگا یہ بات درست ہے لیکن مذہب سے بہتر کوئی بیانیہ نہیں ہاں سوشل میڈیا کے جواب میں جو بیانیہ پیش کیا جاتا ہے وہ بہت ہلکا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادت کے بعد ترانہ پیش کیا گیا جو سوشل میڈیا پر بیانیہ قرار دیا گیا تھا لیکن اس پر بھی تابڑ توڑ حملے کیے گئے۔ پاکستان کو یا تو حکومت پاکستان ثابت کیا جاتا ہے یا یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا وجود صرف پاک فوج کے دم سے ہے۔۔۔ دونوں بیانیوں کے پیش کرنے کے انداز بھی ہلکے ہوتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خودنمائی ہے۔ اگر سماجی میڈیا میں مقابلہ کرنا ہے تو مذہب ہی یہاں پر بھی مقابلہ کرسکتا ہے۔ مذہب کا بیانیہ مستقل بیانیہ ہے کبھی بدلتا نہیں۔ البتہ بدلتے حالات میں بھی رہنمائی دیتا ہے ہاں ایک مشکل ہے۔ مذہب کا بیانیہ سب سے بالا ہوتا ہے سب کو اس کے نیچے آنا پڑتا ہے۔ یہ مشکل حل کرلی جائے تو بیڑا پار ہے۔