احتساب انسداد بد عنوانی کے اداروں سے شروع کیا جائے

159

نیب پختونخوا نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں پلی بارگین سے 18 کروڑ 80 لاکھ روپے وصول کیے گئے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پر صرف ایک ادارے میں 18 ارب اور 20 ارب روپے کی کرپشن کی رپورٹ سامنے آتی ہو وہاں پر سال بھر میں ایک صوبے میں 19 ارب روپے سے کم کی وصولیابی ان اداروں کی حقیقت بتانے کے لیے کافی ہے ۔ پاکستان اس وقت کرپشن کی ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے جس میں روز بروز ابتری ہی سامنے آرہی ہے ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں ۔ کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف۔ کیا انسداد بدعنوانی کے محکموں کے افسران و اہلکار اور کیا عدلیہ و قانون نافذ کرنے والے ادارے اور قانون سازی کرنے والوں کے تو کیا اپنے سب کے سب اس مرض کا شکار ہیں ۔ ہر طرف بدعنوانوں کے احتساب کے نعرے بلند ہورہے ہیں مگر اس انسداد بدعنوانی کی تعریف یہ ہے کہ مجھے معاف کردیا جائے اور میرے مخالفین کو سزا دے دی جائے ۔ ایسے میں احتساب کیسے ممکن ہے ۔ملک کی موجودہ صورتحال میں احتساب کے لیے ضروری ہے نقطہ آغاز انسداد بدعنوانی کے اداروں اور عدلیہ سے کیا جائے ۔ اگر یہ دو ادارے ہی بدعنوانی سے پاک ہوجائیں تو ہی ملک کو بدعنوانی کی خوفناک وبا سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو پھنس گیا اُس کی بری قسمت ورنہ سب لوگ مزے کررہے ہیں ۔ اس کی ایک مثال تجاوزات کے خلاف مہم ہے ۔ تجاوزات کے نام پر پورے شہر میں توڑ پھوڑ مچادی گئی مگر ان افسران کو کسی نے ایک لمحے بھی کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جن کے دور میں یہ تجاوزات قائم کرنے کی سہولتیں فراہم کی گئیں ۔ اسی طرح روز پتھارے والوں کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے اور ان کا سامان ضبط کرلیا جاتا ہے مگر کوئی بھی متعلقہ تھانے والوں سے اور بلدیہ کے متعلقہ اداروں سے سوال جواب نہیں کرتا جو یہ پتھارے لگواتے ہیں ۔آج بھی رفاہی پلاٹوں پر قبضے جاری ہیں مگر کوئی بھی انہیں پکڑنے والا نہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جو سوال جواب کرنے والے ہیں اور جو سزا دینے والے ہیں وہی کرپشن کے کینسر کا شکار ہیں ۔ تو ایسے میں کرپشن کے مرض کا علاج کیوں کر ممکن ہے ؟