اصطلاحات

204

ہمارے ہاں بجٹ کے موقع پر، اُس سے پہلے اوربعد معاشی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں، اُن میں سے چند یہ ہیں:
(الف) فی کس آمدنی: اسے Per Capita Income کہتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ ملک کی کل آمدنی کا تخمینہ لگاکر کل آبادی پر تقسیم کردیا جائے، یعنی کل آمدنی مقسوم (Devidend)، کل آبادی مقسوم علیہ (Devisor) اور جو جواب آئے، وہ فی کس آمدنی کہلاتی ہے۔ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ واقعی ہر شہری کو کل آمدنی میں سے اس کا برابر حصہ مل جاتا ہے، یہ فقط ممالک کی معاشی استعداد کو ماپنے کا ایک فارمولا یا ذریعہ ہے، درحقیقت اس آمدنی کا اسّی فی صد اَپر کلاس کے چند ہاتھوں میں ہوتا ہے اور مڈل کلاس اورلوئر کلاس کے طبقات کو، جو ملک کی آبادی کا پچانوے فی صد ہوتا ہے، باقی تقریباً بیس فی صد ملتا ہے، اس کی تقسیم بھی مساوی نہیں ہوتی، بلکہ اس میں بھی درجات کا تفاوُت موجود ہوتا ہے، الغرض زیریں طبقات کلی یا جزوی طور پر طبقۂ محرومین (Deprived) کہلاتے ہیں۔ عالمی اعداد وشمار میں کسی ملک کی فی کس آمدنی کو ڈالروں میں سالانہ یا یومیہ آمدنی کے طور پر دکھایا جاتا ہے، یہ سب الفاظ کی شعبدہ بازی ہوتی ہے، یہ سب اعداد و شمار حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ تخمینہ لگانے میں ایک اور نقص یہ ہے کہ فرض کریں ڈالر ایک سو چالیس پاکستانی روپے کے برابر ہے، مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک امریکی ڈالر کی قوتِ خرید ایک سو چالیس پاکستانی روپے کی قوتِ خرید سے زیادہ ہے، اس لیے اب مطالبہ کیا جارہا ہے کہ Purchasing Power Parity Per Capita Income یعنی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قوتِ تبادلے کے بجائے قوتِ خرید کو فی کس آمدنی کے لیے معیار بنایا جائے، اس نظریے کے علم برداروں کے بقول اس سے فی کس آمدنی حقیقت سے قریب تر ہوجائے گی، واللہ اعلم بالصواب۔
(ب) مجموعی قومی آمدنی: اسے انگریزی میں Gross Domestic Productکہتے ہیں، یعنی ملک کے اندر جو کل پیداوار ہوتی ہے، خواہ افراد کی ہو، کمپنیوں اور کارپوریٹڈ اداروں کی ہو، اس میں بین الاقوامی کارپوریٹ اداروں (Multinational Enterprise) کی آمدنی بھی شامل ہوتی ہے، جو وہ کسی ملک کی حدود میں کماتے یا پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنا منافع یا تواُسی ملک کے اندر مزید سرمایہ کاری اور کاروبار بڑھانے میں استعمال کرتے ہیں یا واپس اپنے ملک لے جاتے ہیں اور کبھی اپنا کاروبار فروخت کر کے پوراسرمایہ سمیٹ کر اُس ملک سے نکل جاتے ہیں۔
(ج) پیداواری تخمینے: ہمارے ہاں جو فی کس آمدنی یا جی ڈی پی کے تخمینے لگائے جاتے ہیں، یہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح بالکل یا بہت حد تک درست (Accurate) نہیں ہوتے، کیوں کہ ترقی یافتہ ممالک میں معیشت بہت حد تک دستاویزی (Documented) ہوتی ہے، جب کہ ہمارے جیسے ترقی پزیر یا پسماندہ ممالک میں دستاویزی معیشت کے مقابل اس کے برابر یا زیادہ حَجم کی غیردستاویزی معیشت بھی ہوتی ہے، اس میں رئیل اسٹیٹ کا بھی ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے اور اسی طرح تجارت یا صنعت سے جوآمدنی ٹیکس نیٹ سے بچالی جائے، وہ بھی اسی زیرِ زمین معیشت کا حصہ ہوتی ہے، اسی کو کالا دھن یا Black Money کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں زرعی پیداوار کے جو تخمینے لگائے جاتے ہیں، یہ بھی حقیقت سے کافی بعید ہوتے ہیں، کیوں کہ ان چیزوں کی حقیقی مقدار کو جانچنے کے لیے کوئی جامع اور مؤثر میکنزم نہیں ہوتا، بس ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔
(د) حکومتی آمدنی : اس سے مراد مختلف مدّات میں وہ محاصل (Revenues)ہیں جو حکومت اپنے عوام اور کاروباری طبقات سے وصول کرتی ہے، چوں کہ ہماری معیشت دستاویزی نہیں ہے، اس لیے اکثر حکومتی ٹیکس بالواسطہ (Indirect) ہوتے ہیں اور ان کا سارا بوجھ عام صارفین پر پڑتا ہے، جیسے جنرل سیلز ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی وغیرہ۔ ہماری حکومتیں بالواسطہ ٹیکسوں پر اس لیے انحصار کرتی ہیں کہ بالائی طبقات یعنی بڑے صنعتکار، تاجراور خاص طور پر بڑے زمیندار اور جاگیردار طبقے سے وہ حقیقی براہِ راست ٹیکس وصول کرنے میں کلی طور پر ناکام ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ یہی مراعات یافتہ طبقات ملک کے حکمران ہوتے ہیں اور اپنی گردن پر چھری چلانے کے لیے کوئی بھی آمادہ نہیں ہوتا، البتہ صنعتکاروں اور تاجروں کے پاس اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے دلائل ہوتے ہیں، کیوں کہ جو ٹیکس وصول ہوتا ہے، وہ انہی سے ہوتا ہے، تنخواہ دار طبقہ ٹیکس ادا کرنے میں بے اختیار ہے، کیوں کہ ان کے پاس گریز کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ تحریری ریکارڈ کے بغیر کسی کو تنخواہ مل جائے۔ ٹیکس بالکل نہ دینے والوں یا معمولی دینے والوں میں بڑے بڑے گدی نشین، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے تاجر بھی ہیں۔
ہماری نظر میں کسی ملک کی اصل قومی آمدنی مندرجہ ذیل عناصر پر مشتمل ہے:
(الف) اجناس، پھلوں، سبزیوں وغیرہ کی صورت میں زرعی آمدنی، نیز جنگلات سے حاصل ہونے والی آمدنی، اگر فی الواقع ایسا ہے، جب کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جنگلات کا رقبہ عالمی اوسط کے مقابلے میں بہت کم ہے اور کوئی ایسی قیمتی لکڑی نہیں ہے، جسے اپنی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد برآمد کر کے زرِمبادلہ کمایا جائے، ہوسکتا ہے کہ شیشم کی لکڑی سے تیار کردہ کچھ فرنیچر برآمد ہوجاتا ہو، لیکن اس کی مقدار کو بھی معتدبہ نہیں کہاجاسکتا۔ ہماری زرعی اجناس میں سے کپاس اور چاول برآمد کا ایک ذریعہ ہیں، پھلوں میں سے کسی حد تک آم اور کینو وغیرہ ہیں۔ لیکن اس کو بھی ہم عالمی معیار پر ویلیو ایڈڈ نہیں کرپاتے، پروسیسنگ، گریڈنگ اور پیکنگ عالمی معیار کی نہیں ہوتی کہ ہر پیکٹ پر ایکسپائری ڈیٹ لکھی ہو۔ سمندر میں سے تاحال ہم کسی حد تک ملکی ضروریات اور برآمد کے لیے مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ پر انحصار کر رہے ہیں، ہمیں ان کے بھی حقیقی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
(ب) زیرِ زمین اور برسرِ زمین معدنیات میں سے، جیسے سنگِ مرمر کی مختلف اقسام، سونا، چاندی، لوہا، پہاڑی نمک، تیل کی مختلف اقسام اور گیس وغیرہ۔ ہم اپنی ضرورت کا ایندھن بھی پیدا نہیں کرپاتے، زیادہ تر پٹرول، ڈیزل، فرنس آئل اور ایل این جی وغیرہ پر ہمارا انحصار ہے۔ بلوچستان سے سوئی کے مقام پر جو گیس نکالی جاتی ہے، اس کی پیداواری استعداد کم ہوتی جارہی ہے، داخلی بدامنی کے زمانے میں آئے دن گیس کی پائپ لائن کو اڑادیا جاتا ہے، اس سے گیس کی ترسیل (Supply) کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اب الحمد للہ! ہماری مسلح افواج نے بلوچستان میں بد امنی پر کافی حد تک قابو پالیا ہے، لیکن اس میں کلی طور پر کامیابی کافی مشکل امر ہے، کیوں کہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور دشوار گزار بھی ہے، مزید یہ کہ مقامی آبادی کا ایک معمولی حصہ خواستہ (Willingly) اور بڑا حصہ ناخواستہ (Unwillingly) نہ ان سے تعرض کرتا ہے اور نہ ان کی نشاندہی کرتا ہے، اب کہا جارہا ہے کہ مسلح افواج کے کنٹرول کے سبب لوگوں میں کچھ حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ معیشت کے استحکام کا مدار اس پر ہے کہ ہماری برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوں یعنی زرمبادلہ کی ادائیگیوں کا توازن ہمارے حق میں ہو، لیکن یہ توازن بہت زیادہ بگڑا ہوا ہے اور فوری طور پر اس خلا کو پر کرنے کے کوئی حالات یا اسباب نہیں ہیں۔ حُجم کے اعتبار سے امریکا کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، لیکن توازنِ ادائیگی اس کے حق میں نہیں ہے۔ چین ہی ایک ایسا ملک ہے کہ عالمی منڈیاں اس کی مصنوعات اور اشیائے صَرف سے بھری پڑی ہیں اور توازنِ ادائیگی اس کے حق میں ہے اور اس کی معاشی شرحِ افزائش (Growth Rate) قابلِ رشک ہے ۔ مغربی ممالک نے World Trade Organization قائم کرکے عالمی تجارتی معاہدات اس لیے کیے تھے کہ اُن کے مفادات کا تحفظ ہو، لیکن موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اُسے رد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیوں کہ یہ اب اس کے مفادات کا محافظ نہیں رہا۔ کیوں کہ لیبر قوانین کی وجہ سے مغربی ممالک میں صنعتی پیداوار کافی مہنگی پڑتی ہے اور وہ عالمی مارکیٹ میں چین، جاپان اور شمالی کوریا وغیرہ سے مسابقت کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔
ہمارے لبرل اہلِ مذہب کو کوستے رہتے ہیں، آئیے ان کے سامنے پیرس کی تصویر پیش کریں، یہ ایک اخبار کا ادارتی نوٹ ہے:
’’فرانس اور بیلجیئم میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں پیرس میدان جنگ بن گیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس پھینکی، مرچوں کا اسپرے کیا، آنسو گیس کے شیل استعمال کیے اور واٹر کینن استعمال کیے۔ ان جھڑپوں میں درجنوں لوگ زخمی ہوئے، برسلز میں گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں، مجموعی طور پر 1700 افراد گرفتار کیے گئے۔ ایک اطلاع کے مطابق بیلجیئم میں چار سو لوگوں نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولااور سو افراد گرفتارہوئے۔ گرفتار شدگان آتش گیر مادہ لے کر جارہے تھے تو کیا وہ اس سے سگریٹ سلگاتے، یقیناًتباہی پھیلائی جاتی۔
یہ تہذیب یافتہ ممالک کہلاتے ہیں، ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ لوگ غصہ آنے پر بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، غصے کا اظہار بھی تہذیب کے دائرے میں کرتے ہیں۔ پاکستان یادیگر ترقی پزیر یا پسماندہ ملک کے باشندوں سے یہ لوگ پوچھیں کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے، حکومت ایندھن کی قیمتوں میں من مانے اضافے کردیتی ہے اور یہ چپ چاپ برداشت کرلیتے ہیں۔ الغرض ہمارا میڈیا یورپی اَقدارکی تعریف میں ہمیشہ رَطبُ اللِّسَان رہتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں ناموس رسالتؐ کے نام پر نکلنے والے کسی جلوس میں کوئی توڑ پھوڑ ہوجائے یاباقاعدہ منصوبہ بندی سے کرادی جائے تو ہمارے لبرل دانشورغیظ وغضب میں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اورڈائرکٹ اسلام کو ہدف بناتے ہوئے کہتے ہیں: یہ کون سا اسلام ہے۔ مگر آج کسی ٹی وی پر کوئی دانشور یہ سوال نہیں کر رہا کہ یہ کون سی تہذیب ہے۔ احتجاج کرنے والے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچارہے ہیں، آگ لگارہے ہیں، حکومت مرچوں کا اسپرے کررہی ہے، انسانیت، تہذیب، اخلاقیات سب ایک احتجاج میں ہوا ہوگئے، گیس کے شیل پھینکتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کی صحت کی کوئی فکر نہیں ہوتی، اس پراحتجاج کرنا روا نہیں، کیوں کہ بقول شخصے:’’After allیہ مہذّب لوگ ہیں ‘‘۔