چین امریکا مخاصمت اور پاکستان

204

امریکا اور چین کے درمیان اقتصادی مسابقت اب اسٹرٹیجک مخاصمت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اس کا ایک ثبوت امریکا کے ایک اعلیٰ انٹیلی جنس اہلکار کا برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ بات چیت کے دوران یہ کہنا ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے لیے اب چین سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بل ایونینا نامی اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ چین کے مقابلے میں روس کا خطرہ اب ماند پڑ چکا ہے۔ چین امریکا پر گمراہ کن بیانات اور اقدامات کا الزام عائد کرتا ہے۔ چین کی اقتصادی کامیابی کی بنیاد کمرشل رازوں کی چوری پر رکھی گئی ہے جن کی قیمت امریکی عوام نے چکائی ہے۔ اس سے پہلے امریکی عہدیداروں کی طرف سے چین اور روس کے یکساں انداز کے خطرے کا ذکر کیا جاتا تھا۔ امریکا کے مستعفی سیکرٹری دفاع جم میٹس نے کچھ ہی عرصہ قبل کہا تھا کہ اب امریکا کو روس اور چین سے خطرات ہیں جو دنیا کو اپنے آمریت پسند طرز حکومت سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اب امریکی عہدیدار نے چین کو روس سے بڑا خطرہ قرار دے کر معاملے کو ایک نئی جہت دی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین ایک سپرپاور ہے اسے کوئی یہ ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ چینی صدر کا یہ اشارہ امریکا ہی کی طرف تھا۔
امریکا اور چین میں اقتصادی مخاصمت اور پابندیوں کی صورت میں کشیدگی کا ایک دور ہوچکا ہے۔ یہ دور گزر تو چکا ہے مگر اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ چین امریکا کو پہلے بھی سرد جنگ کی ذہنیت سے باہر نکل آنے کا مشورہ دے چکا ہے۔ امریکا اب چین کی فوجی حکمت عملی کو سامنے رکھ کر اپنی فوج کی ضروریات پوری کرتا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکا نے اپنے دشمنوں یا مخالفین کی فہرست میں چین کا نام سب سے اوپر رکھ لیا ہے۔ چین بھی اپنی روایتی خاموشی ترک کرکے اب امریکا کے رویوں پر معنی خیز انداز اور گہرے جملوں کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کرنے لگا ہے۔ یہ دھیمے پن کے بجائے ترکی بہ ترکی جواب دینے کا راستہ ہے جس سے امریکا کو اب واسطہ پڑ رہا ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور محاذ آرائی ایک فطری عمل ہے۔ امریکا اب دنیا کی ایک وقت گزیدہ سپر طاقت ہے۔ جس نے عروج کا ایک بھرپور دور دیکھ لیا ہے۔ سوویت یونین جیسے حریف کی پسپائی سے امریکا نے دنیا کے یک قطبی ہونے کا مزہ بھی چکھ لیا ہے۔ جب عالمی منظر پر امریکا واحد سپر طاقت کے طور پر موجود رہا۔ یہ دور ڈھائی تین عشروں سے زیادہ عمر نہ پاسکا اور چین ایک اقتصادی انگڑائی لے کر میدان میں آدھمکا اور اسی دوران روس نے بھی اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو مجتمع کرکے عالمی اور علاقائی معاملات میں دلچسپی دکھانا شروع کردی۔ امریکا نے چین کو اپنے سب سے بڑے حریف کے طور پر نشانے پر رکھ لیا ہے تو اس میں پاکستان کے سوچنے کے کئی پہلو ہیں۔ امریکا کا عالمی اثر رسوخ کم ہورہا ہے مگر ایسا نہیں امریکا سوویت یونین کی طرح اپنا عالمی ایجنڈا لپیٹ کر الماری کی زینت بنانے جا رہا ہے۔ دنیا کے ایک بڑے حصے پر امریکی اثرات مختلف انداز سے جاری رہیں گے۔ عالمی نظام اس وقت کلی طور پر امریکنائز ہوکر رہ گیا ہے۔ عالمی فیصلہ ساز اداروں، معاشی مراکز اور دنیا کا ماحول اور منظر تشکیل دینے کے ابلاغی مراکز سب پر امریکا کی چھاپ گہری ہے۔ امریکا کے پاس موجود مقام اور حیثیت کو بچانے کے لیے اب بھی وسائل کی کوئی کمی نہیں اور وہ وسائل لگانے کا فن بھی جانتا ہے۔ وہ اپنے عالمی ہمنواؤں اور ڈالر پسند نظریاتی پیروکاروں کو سوویت یونین کی طرح اچانک یتیم چھوڑ کر جانے کے موڈ نہیں۔ اس طرح عالمی منظر پر امریکا کی چھاپ آسانی سے ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کے سوچنے اور حکمت عملی کا جائزہ لینے کے بہت سے پہلو ہیں۔
پاکستان اور چین اس وقت دوستی، اور تعاون کی راہوں پر دوڑ رہے ہیں۔ دونوں کے درمیان ہمہ جہتی تعلقات نہ صرف عرصہ دراز سے قائم ہیں بلکہ ان میں مضبوطی اور ٹھیراؤ بھی آچکا ہے۔ سی پیک دونوں کے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا باعث ہے۔ پاکستان اور چین تجارتی اور دفاعی شراکت دار بھی ہیں۔ ایسے میں چین کے ساتھ کھڑا پاکستان امریکا کو کیوں کر گوارہ ہو سکتا ہے اور امریکا اپنی اس جلن کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا بھی چلا آرہا ہے۔ پاکستان کے منصوبہ سازوں اور حکمران طبقات کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنی تاریخی دوستی میں دراڑ بھی نہ آنے دیں اور امریکا کی دشمنی کی آگ کو ایک حد سے بڑھنے نہ دیں۔ بھارت سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین کا کھلا اتحادی ہونے کے باوجود امریکا کے ساتھ بھی معاملات کو مکمل خرابی سے بچاتا رہا ہے۔ پاکستان کو بھی امریکا اور چین کی مخاصمت اور مسابقت میں چین کے ساتھ کھڑے رہتے ہوئے امریکا کی فتنہ جو خصلت کو قابو میں رکھنا چاہیے۔