متحدہ عرب امارات میں امریکا اور افغان طالبان کے ایک حصے کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کے فرائض انجام دینے پر پاکستان کے حکمران اس طرح خوش ہیں جیسے دنیا کی عزت اور سعادت ان کی دہلیزچوم رہی ہے۔ امریکی صدور میں نہ جانے کیا جادو ہے کبھی ہم ایک ٹیلی فون کال پر ان کے آگے لیٹ جاتے ہیں اور کبھی ایک خط پر۔ ادھر سیماب صفت لیکن انتہائی چالاک اور باتوں کے استرے سے لوگوں کو مونڈ دینے والے صدر ٹرمپ کا خط وزیراعظم عمران خان کو موصول ہوا ادھر 18دسمبر 2018کو انہوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ میں صدر ٹرمپ کو یقین دہانی کرادی کہ ’’امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے‘‘ ان کی حکومت وہ سب کرے گی جو وہ کرسکتی ہے۔
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں تیرے فقیروں میں، میں تیرے غلاموں میں
وہ کون سی کسر ہے جو امریکا نے ہمیں ناکام بنانے کے لیے نہ کی ہو۔ امریکا بھارت سے بڑھ کر پاکستان اور اس کے عوام کا دشمن ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں کا وہ جانِ جاں ہے۔ جب پاکستان کے مفادات کا معاملہ ہو تو امریکا ہمیں سوئی برابر رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ رعایت دینا تو کجا مشکل گھڑی میں وہ ہزار طرح کے مسائل پاکستان کے لیے پیدا کردیتا ہے۔ پاکستان کے حکمران ایسے مواقع پر اس طرح ظاہر کرتے ہیں جیسے اب وہ امریکا کو پاکستان کا دشمن نمبر ون سمجھنے لگے ہیں۔ امریکا مخالف بیانات کی لائن لگ جاتی ہیں۔ ’’وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کو کھری کھری سنادی‘‘ جیسی سرخیاں لہو کو گرمانے لگتی ہیں لیکن جیسے ہی زخمی آقاؤں کی مدد کا معاملہ آتا ہے، امریکی صدور ہم سے مدد طلب کرتے ہیں ہمارے حکمران پوری قوت اور مکمل صلاحیت کے ساتھ امریکا کی مدد کے لیے میدان میں کود پڑتے ہیں۔
زندگی بکھرتی ہے شاعری نکھرتی ہے
دلبروں کی گلیوں میں دل لگی کے کاموں میں
ستم یہ ہے کہ اس نوکری، چاکری اور امریکی مفادات کی تکمیل کو پاکستان کے حکمران پاکستان کے مفادات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ امریکا دہشت گردی کی جنگ کے عنوان سے خطے کو جنگ میں جھو نکنا چاہتا تھا اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہم نے پورا پا کستان امریکا کے سپرد کردیا۔ اس زمانے کا سب سے مقبول نعرہ یہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا کی نہیں ہماری جنگ ہے۔ اب جب کہ امریکا کو خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے ایک سیاسی ڈیل کی ضرورت ہے تو ہمارے حکمرانوں نے جنگ کی مذمت کرتے ہوئے خطے میں امن کے نام پر، سہولت کاری کے نام پر، امن کے مے کدوں میں ساقی کے فرائض انجام دینا شروع کردیے ہیں۔
اب تو اس کی آنکھوں کے مے کدے میسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈوگے ساغروں میں جاموں میں
اب اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے حکمران ابتدا ہی سے امریکاکو پاکستان کرائے پر پیش کرتے رہے ہیں۔سرد جنگ سے لے کر تا حال جب امریکا کو پاکستان کی ضرورت رہی پاکستان کے حکمرانوں کا تعاون درکار ہوا ہم اس کی ایک پکار پر فرش مخمل بن گئے کہ آؤ اپنے مفادات پورے کرو چاہے پاکستان کو روندتے ہوئے گزر جاؤ ہم کوئی مزاحمت نہیں کریں گے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ کرائے کی بندوقوں کا یہ کردار ادا کرنے پر ہم کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ فخر کرتے ہیں۔ امریکی ہمیں ڈالر لے کر کام کرنے والی ریاست قرار دیں، ہمیں کرائے کے فوجی سمجھیں، روگ اسٹیٹ کہیں ہمارے حکمران برا نہیں مانتے۔
جس طرح شعیب اس کا نام چن لیا تم نے
اس نے بھی ہے چن رکھا ایک نام ناموں میں
پاکستان کی بہادر افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اعلیٰ کارکردگی کی دنیا معترف ہے۔ یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار تھا جس نے سوویت یونین کو افغانستان سے فرار پر مجبور کیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے لیکن بدلے میں ہمیں کیا ملا۔ دو قطبی کے بجائے یک قطبی دنیا، دنیا کی واحد سپر پاور امریکا اور اس کی پابندیاں، بے اعتنائیاں اور ہر فورم اور ہر محاذ پر پاکستان دشمن کردار۔ نائن الیون کے بعد ہم نے امریکا کے لیے اپنا سابقہ کردار پھر دہرایا اور وقت نکلنے کے بعد امریکا نے اپنا۔ ہم نے اسے تقدیر کا لکھا سمجھا۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کا موں میں
امریکا معاشی اور فوجی لحاظ سے تھکن کا شکار ہے۔ وہ افغانستان کی جنگ ہارچکا ہے۔ کھربوں ڈالر پھو نک دینے کے بعد بھی 60 سے 70فی صد افغانستان پر افغان طالبان کی حکومت ہے جن کا افغانستان وطن ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے جنگ کے خوف سے امریکی فوجی خود کشیاں کررہے ہیں۔ امریکا کی اس درگت کے ذمے دار وہ افغان مجاہدین ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے جہاد، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھروسے اور آہنی عزم کے، امریکا جن سے امن کے نام پر مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ مذاکرات ایک مکر اور فریب ہیں۔ امریکا ان مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے واپسی نہیں افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنی نجی اور سرکاری فوج کو مستقل دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکا اس ہاری ہوئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر جیتنا چاہتا ہے۔ مستقل طور پر خطے میں موجود رہنے، بھارت کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کو برقرار رکھنے، چین اور پاکستان کو اپنی حد میں رکھنے کے لیے امریکا کو ہمارے حکمرا نوں کی سہولت کاری کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ امریکا کی مسلم اور پاکستان دشمنی کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا کو بھی افغانستان میں دفن ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ خطے میں امریکی موجودگی پاکستان کے لیے زہر قاتل اور بھارت کے لیے فائدہ مند ہے۔ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے اور خطے میں پاکستان کو اہم کردار دینے کے بجائے یہ امریکا ہے جس نے بھارت کو افغانستان میں لاکر بٹھا دیا ہے اور اسے کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ افغانستان کو بیس بنا کر پاکستان کے خلاف بھرپور کردار ادا کرے۔ امریکا کو اگر کوئی سمجھتا ہے تو وہ افغان طالبان ہیں۔ جو امریکا کی تمام تر کوششوں اور چالاکیوں کے باوجود اس سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں تھے۔ امریکا کے مطالبات ماننے کے بجائے اس سے صرف ایک ہی مطالبے کی تکرار کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے نکل جائے اپنے مکمل وجود اور اثر پزیریوں کے ساتھ۔ خطے کا امن امریکا کے خطے سے انخلا میں پوشیدہ ہے۔ ان پر فریب مذاکرات میں جن میں ہمارے حکمرانوں نے سہو لت کار کا کردار ادا کیا ہے افغان طالبان کو خطے سے امریکا کے مکمل انخلا کے اپنے سابقہ موقف ہی پر قائم رہنا چاہیے۔ ورنہ وہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی بازی مذاکرات کی میز پر ہار جائیں گے۔ اللہ ان کا حامی وناصر ہو۔