گزشتہ ہفتے کو جامعہ کراچی کے جلسہ تقسیم اسناد میں جانے کا اتفاق ہوا اور نصیب میں یہ بھی لکھا تھا کہ جناب عمران اسمٰعیل صاحب بحیثیت چانسلر اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ و طالبات کو ڈگری تفویض کریں گے۔ اساتذہ کی تنظیم فپواسا پہلے ہی سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی۔ جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ کے عین سامنے ایک بینر لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ انٹر پاس گورنر آج پی ایچ ڈی اسکالرز کو ڈگریاں دے گا۔ ہمیں گورنر صاحب کی ڈگری سے سروکار نہیں اب تک ان کے پاس بھی کوئی نہ کوئی ڈگری آگئی ہوگی۔ دنیا بھر میں ایگزیکٹ کے علاوہ بھی بہت سے ادارے کام کررہے ہیں، لہٰذا اس معاملے پر بات کا فائدہ نہیں۔ بات تو یہ ہوئی کہ عمران اسمٰعیل نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے خان صاحب کے سچے پیروکار ہیں۔ ابتدا کی گفتگو میں عاجزی کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں شیخ الجامعہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے آج کی تقریب میں مجھے مدعو کیا اور یہاں اساتذہ و طلبہ سے خطاب کا موقع دیا۔ گویا جس طرح وزیراعظم کو پتا نہیں یا انہیں یاد نہیں رہتا کہ وہ وزیراعظم ہیں اس طرح انہیں پتا نہیں کہ وہ جامعہ کراچی کے چانسلر ہیں اور کانووکیشن میں چانسلر ہی صدارت کرتا ہے۔ ان کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ بھول گئے ہوں گے۔ بلکہ یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ انہیں یہ بات معلوم ہی نہیں ہوگی کہ کانووکیشن کی صدارت چانسلر ہی کرتا ہے اور چانسلر وہ خود ہیں تو انہیں دعوت دینے اور عزت افزائی کا کیا مطلب ہے۔ بہرحال ان سے ایک گستاخی بھی ہوگئی۔ دیگر انصافیوں کی طرح انہوں نے تقریر میں عمران خان کے وژن کا ذکر نہیں کیا صرف اپنے دوست نجیب ہارون کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف کے بعد کہا کہ قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دوں۔ ہوا یوں کہ نجیب ہارون نے امریکا سے واپس آکر ابھی ملازمت تلاش کی انہیں ملازمت نہیں ملی۔ تو انہوں نے اپنا کاروبار کیا اور آج پاکستان کی بہت بڑی کنسٹریکشن کمپنی کے مالک ہیں۔ پھر اس آیت سے اس صورت حال کو ملادیا کہ ’’اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے‘‘۔ اس آیت سے کسی کی ملازمت کا کیا تعلق لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سبحان اللہ کہہ رہے تھے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عمران اسمٰعیل کو روکے گا کون، کیوں کہ وہ تو خود اس ترانے کے خالق ہیں کہ تبدیلی آئی رے۔ روک سکو تو روک لو۔۔۔ وہ تو اس وقت گورنر بھی نہیں تھے جب یہ کہا تھا اب تو گورنر بھی بن گئے ہیں۔ اب روک سکو تو روک لو۔۔۔ لیکن کس کس کو روکیں۔ ابھی گورنر صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ڈگری دیتے ہوئے یہ باتیں کررہے تھے کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے انتہا کردی۔ لاہور کے ایک ویب ٹی وی کو انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کیا اس امر کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ لوگوں کی گردنیں نہیں کٹیں گی۔ تو جواباً گویا ہوئے، دانشورانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ آپ عیدالاضحیٰ مناتے ہیں، جانور ذبح کرتے ہیں اس کام میں سیکڑوں لوگ زخمی ہوجاتے ہیں، مر بھی جاتے ہیں،
تو کیا آپ عیدالاضحیٰ پر پابندی لگادیں گے۔ اس پر استغفار تو پڑھا جانا چاہیے لیکن وزیر موصوف کو ہو کیا گیا ہے۔ ہر سال اخبارات بھرے پڑے ہوتے ہیں جن میں بسنت کی پوری تاریخ لکھی ہوتی ہے کہ یہ کیا ہے۔ گورنر سندھ کی طرح فیاض چوہان کے بارے میں بھی یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اردو اخبارات ہی سمجھ کر پڑھ سکتے ہیں ویسے بھی انگریزی اخبارات میں ایسی چیزیں نہیں چھپتیں۔ اردو اخبارات میں تو اس سال بھی یہ تاریخ کوئی نہ کوئی لکھ دے گا۔ لیکن بسنت کے لاہور میں منائے جانے پر ایک سوال زوروں پر ہے کہ اگر یہ خوشی کا تہوار ہے اور اس کی تاریخ ہندوؤں کی سروسوتی دیوی سے ملتی ہے جو موسیقی کی دیوی تھی تو بھی سارے ہند میں یہ تہوار کہیں نہیں منایا جاتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بھی ہمارے چوہان صاحب کی لاعلمی آڑے آئی ہے۔ لاعلمی میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی بات بتادی جائے تو وہ اگر آدمی ہو تو اپنی لاعلمی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ بصورت دیگر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتا ہے اور فیاض چوہان صاحب بصورت دیگر والی چیزہیں، اس تہوار کے بارے میں معروف اسکالر اوریا مقبول جان نے بھی بتایا کہ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ گستاخ رسول حقیقت رائے کی یاد میں ہندو قیام پاکستان سے قبل پورے ہندوستان سے لاہور آکر بسنت منایا کرتے تھے لیکن یہ بات بھی ریکارڈ پر لائیں کہ حقیقت رائے کو جب پھانسی ہوئی تو اس کی تدفین لاہور میں ہوئی اور اگلے سال سے ہندوؤں نے یہاں بسنت منانی شروع کی۔ اس کی سمادھی لاہور میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے پاس ہے۔ یہ تو تاریخ تھی۔ لیکن فیاض چوہان صاحب ہمیں کیا
چیز، صرف وزیر اطلاعات، جس کی کیا اوقات، وہ تو ہیں رسالت کے مجرم حقیقت رائے کی یاد میں تہوار منانے کی بات کرتا ہے اور عیدالاضحی سے اس کی مماثلت ظاہر کرتا ہے۔ اگر وزیراعظم انہیں بھی روک سکتے ہیں تو روک لیں یہ بھی جنرل پرویز کی ایک اور بدعت کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ عدالت کے احترام کی بات کی گئی ہے لیکن ابھی عدالتوں کا احترام کن لوگوں پر واجب ہوگا جو سود کے حق میں دلائل مانگیں، جو شراب پر پابندی نہ لگاسکیں، یہ عدالتیں بھی اگر ایسے لوگوں کی سرپرست بن جائیں جو شراب کو شہد اور زیتون کا تیل بتادیتے ہوں اور عمران خان بنی گالا مارکہ شہد والے کو کشمیری امور سونپ دیں پھر پوچھا جاتا ہے کہ کشمیر کیوں آزاد نہیں ہوتا۔ چھوٹے وزیر اطلاعات کا یہ حال ہے تو بڑے میاں بھی کوئی نہ کوئی بات ضرور کریں گے۔ چناں چہ اپنے ہی اسپیکر پر برس پڑے کہ شہباز شریف کے عالیشان گھر کو سب جیل قرار دے دیا گیا اور غریب کی لاش کو بھی ہتھکڑی میں رکھا گیا۔ یہ منظر صرف یہ پیغام دینے کے لیے تھا کہ اگر آپ غریب ہیں تو آپ کا یہ مقدر ہے۔ وزیر موصوف شہباز شریف دشمنی میں اپنی پارٹی، حکومت اور سارے نظام پر تنقید کرگئے جو پہلی مرتبہ درست ثابت ہوئی۔ یعنی ان کی اپنی حکومت میں یہی ہورہا ہے۔ اور بیان بازی کے بادشاہ شیخ رشید کو تو کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ عمران خان، روک سکیں تو روک لیں۔ انہوں نے اسمبلی کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی اوقات یہ ہے کہ سب سے بڑے چور کو اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنادیا۔ اگر اسمبلی کے بارے میں مسلم لیگ (ن)، پی پی یا کسی اور پارٹی کا فرد یہ کہتا تو فواد چودھری اس کی زبان کھینچنے دوڑتے۔ ارے کون لوگ ہیں یہ۔۔۔ روک سکو تو ابھی روک لو۔۔۔ ورنہ یہ سب ڈبادیں گے۔