آبادی کم کرنے کے بجائے زمینیں آباد کریں

177

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے بروقت اور درست توجہ دلائی ہے کہ آبادی کم کرنے کے بجائے بنجر زمینوں کی آباد کاری پر توجہ دی جائے ۔ ویسے تو آبادی میں کمی ایوب خان سے لے کر اب تک کی ہر حکومت کی ترجیح رہی ہے اور اس کے لیے بے محابا فنڈز کا استعمال بھی کیا گیا مگر جس طرح موجودہ عمرانی حکومت اس کے لیے کمربستہ ہے ۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ صرف اور صرف آبادی ہی ہے ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا ہوّا دنیا کے لیے کوئی نیا نہیں ہے ۔اب تو اس کے نتائج بھی دنیا کے سامنے ہیں ۔ جہاں جہاں اس نسخے پر عمل کیا گیا وہاں وہاں وہ مسائل پیدا ہوئے ہیں کہ اب سنبھالے نہیں سنبھل رہے ہیں ۔ دنیا کے کئی ممالک میں آبادی میں اضافہ منفی اعداد میں داخل ہوگیا ہے یعنی ان ممالک میں آبادی میں اضافہ کے بجائے کمی واقع ہورہی ہے ۔ جبکہ اکثر ممالک میں آبادی میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان ممالک کی فہرست میں مغربی ممالک کے ساتھ چین، جاپان اور روس بھی شامل ہیں ۔ بچوں کی تعداد کم ہونے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان ممالک میں اب بوڑھوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے ہاتھ کم ہوگئے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ جن لوگوں نے کم بچوں یا بچے نہ ہونے کی پالیسی پر عمل کیا ، وہی لوگ آج بڑھاپے میں لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اس کا نتیجہ ان ممالک کی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی پڑا ہے ۔ کام کرنے والے نوجوانوں کی عدم دستیابی کے باعث یہ ممالک مجبور ہوئے کہ ترقی پذیر ممالک کے نوجوانوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھولیں ۔ اس کے باعث یہ ممالک اب معاشرتی ناہمواری کا شکار ہوگئے ہیں ۔نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ان تمام ممالک کے لیے رحمت ثابت ہوا ہے جہاں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ یہ نوجوان نہ صرف اپنے ملک کی ترقی کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کا بھی باعث ہیں ۔ یہ نوجوان ہی تو ہیں جو روزگار کے لیے سمندر پار ممالک کا رخ کرتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو قیمتی زرمبادلہ بھیجتے ہیں ۔ ذرا پاکستان ، بھارت ، سری لنکا اور بنگلادیش کے کھاتوں سے یہ زرمبادلہ الگ تو کریں پھر پتہ چلے گا کہ ان ممالک کی معیشت کی نیا کہاں پر جا کے ڈوبتی ہے ۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ آبادی میں اضافے کی کیا برکات ہیں ۔ اسی لیے انہوں نے ترک قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ دو بچوں کے بجائے پانچ بچوں کی پالیسی پر عمل کریں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ موجودہ عمرانی حکومت پچاس برس پرانے اس نسخے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ اس کے اثرات سب کے سامنے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان نوجوانوں کا درست استعمال کیا جائے اور ملکی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے ۔ اس کے بجائے نوجوانوں ہی کی تعداد کم کرنے پر توجہ ہے ۔معیشت کو سنبھالنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ یہ کہاں کی دلیل ہے کہ چونکہ حکومت اپنی ذمہ داری کما حقہ پوری طرح ادا نہیں کرسکتی اس لیے آبادی ہی ختم کردی جائے ۔ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسی کسی ماہر اور ملک دوست کے بجائے کسی ملک دشمن کی دی ہوئی ہے جس پر آنکھ بند کرکے عمل کیا جارہا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ایسی احمقانہ پالیسیوں پر یو ٹرن لے لیا جائے ۔