فریبِ مال 

186

عربی زبان میں مال کو مال اسی لیے کہتے ہیں کہ دل اُس کی طرف مائل ہوتا ہے اور کھچا چلا جاتا ہے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ ہر چیز کی کثرت اور فراوانی اُس کی کشش کو کم کردیتی ہے اور انسان کا جی اُس سے بھر جاتا ہے، لیکن مال ایک ایسی چیز ہے کہ اُس کی کثرت انسان کے نفس اور ہوا وہوس کو مزید مفلس بنادیتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان دولت کا پجاری بن جاتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ’’دینارو درہم اور ریشمی وپسندیدہ لباس کا بندہ ہلاک ہوجائے کہ اگر اُس کو دیا جائے تو وہ راضی رہتا ہے اور اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے، (بخاری)‘‘۔ یعنی وہ اپنے خالق ومالک سے بھی خود غرضی اور مطلب پرستی کا تعلق رکھتا ہے اور مطلوبہ نعمت نہ ملنے یا چھِن جانے پر رب کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور جب ہم انسان کو نعمت عطا فرماتے ہیں تو (ہم سے) منہ پھیر لیتا ہے اور پہلوتہی کرتا ہے اور جب اسے برائی پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے، (بنی اسرائیل: 83)‘‘۔
انسان کی اس فطری کمزوری کا سبب یہ ہے کہ وہ مال ودولت ہی کو ’’قَاضِیُ الْحَاجَات‘‘ سمجھنے لگتا ہے اور یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ دولت اُسے دوام عطا کرے گی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہر طعن وتشنیع کرنے والے اور عیب تلاش کرنے والے شخص کے لیے ہلاکت ہے، (یہ وہ ہے) جس نے مال جمع کیا اور اُسے گِن گِن کر رکھا، وہ گمان کرتا ہے کہ اُس کا مال اُسے (دنیا میں) ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہرگز نہیں! وہ چورا چورا کردینے والی آگ میں ضرور پھینک دیا جائے گا اور آپ کیا سمجھے کہ چورا چورا کردینے والی (آگ)کیا ہے؟، وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چھاجائے گی، وہ لمبے لمبے ستونوں میں انہیں گھیر لے گی، (الہُمَزہ: 1-9)‘‘۔
الغرض قرآن نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ دولت کتنی ہی وافر کیوں نہ ہو، ایک دن اُسے اپنے مالک سمیت فنا ہونا ہے اور پھر حساب کتاب کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اِس واضح تنبیہ کے باوجود انسان دولت کے انبار جمع کرنے سے باز نہیں آتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تمہیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے (کی ہوس) نے غافل کر رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ گئے، (التکاثر: 1-2)‘‘۔
سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’بندہ (ترنگ میں آکر) کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، اُس کے (جمع کیے ہوئے) مال میں سے اُس کا حصہ صرف تین قسم کا مال ہے: جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیا یا جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا جو اُس نے اللہ کی راہ میں دے دیا اور وہ اُس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیا، اِس کے سوا جو کچھ بھی ہے (وہ اس کا نہیں ہے)، وہ تو (آخرت کا راہی ہے، وقت آنے پر) چلا جائے گا اور (اپنا تمام جمع کیا ہوا مال وارثوں کے لیے) چھوڑ جائے گا، (مسلم)‘‘۔
اِسی لیے ربّ ذوالجلال نے فرمایا: ’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہیں، (التغابن: 15)‘‘ اور فرمایا: ’’اے ایمان والو! (کہیں) تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جس نے ایسا کیا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ہم نے تمہیں جو مال عطا فرمایا ہے، اُس میں سے کچھ (ہماری راہ میں) خرچ کردو اِس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے، پھر وہ کہے: اے میرے رب! تو نے مجھے کچھ اور دنوں کی مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں صدقہ کرتا اور نِکوکاروں میں سے ہوجاتا اور جب کسی کی موت کا مقررہ وقت آجائے، تو اللہ اُسے مؤخر نہیں فرماتا اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب باخبر ہے، (المنافقون: 9-11)‘‘۔ قرآنِ مجید میں ماضی کی امتوں کے بعض لوگوں کی مثالیں درسِ عبرت کے لیے بیان فرمائی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو دولتِ دنیا کی ناپائیداری کا احساس ہوجائے، وہ دولت کو استعمال تو کریں، لیکن اس کی پرستش نہ کریں۔ بہت سے ایسے لوگوں نے، جو دولت کو بقائے دوام کا ذریعہ سمجھتے تھے، اپنی آنکھوں کے سامنے باغات کو اجڑتے ہوئے،کھیتوں اور کھلیانوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا اور کفِ افسوس مَلتے رہ گئے، لیکن بعد کی پشیمانی ماضی کی خوش فہمیوں کی تلافی نہیں کرسکتی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے ان کی اس طرح آزمائش فرمائی جس طرح ہم نے ان باغ والوں کی آزمائش فرمائی تھی، جب اُنہوں نے قسم کھائی کہ وہ ضرور صبح کو ا س کے پھل کاٹیں گے، اور انہوں نے ان شاء اللہ نہ کہا۔ پھر جب وہ سوئے ہوئے تھے تو آپ کے ربّ کی طرف سے اس باغ پر ایک آفت آئی اور وہ پھل کٹے ہوئے باغ کی طرح ہوگیا۔ پس صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا کہ اگر تم پھل کاٹنے والے ہو تو صبح تڑکے اپنے کھیت کی طرف چلو۔ پھر وہ چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے ہوئے چل پڑے کہ آج اس باغ میں تمہارے پاس ہرگز کوئی مسکین نہ آنے پائے اور پھر وہ خود کو اپنے فیصلہ پر قادر سمجھتے ہوئے سویرے سویرے چل دیے۔ پھر جب انہوں نے اس (کٹے ہوئے) باغ کو دیکھا تو کہا: ہم ضرور راستہ بھول گئے ہیں، بلکہ ہم محروم ہوگئے، اُن میں جو نسبتاً بہتر تھا، اُس نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے، انہوں نے کہا: ہمارا ربّ بے عیب ہے، بے شک ہم ہی ظالم تھے، پھر وہ پلٹ کر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: ہائے افسوس! بے شک ہم ہی سرکش تھے، امید ہے کہ ہمارا ربّ ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے گا، بے شک ہم اپنے ربّ کی طرف راغب ہوتے ہیں، (القلم: 17-31)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور آپ انہیں دوآدمیوں کا قصہ سنا دیجیے، جن میں سے ایک شخص کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عطا فرمائے تھے جن کے چاروں طرف ہم نے کھجور کے درختوں کی باڑ لگا دی تھی اور اُن دونوں کے بیچ ہم نے کھیت پیدا کیے تھے، دونوں باغ خوب پھل لائے اور پیداوار میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور ہم نے ان کے درمیان دریا رواں کردیے تھے۔ جس شخص کے پاس پھل تھے، اس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا: میں تم سے زیادہ مال دار ہوں اور میری افرادی قوت بھی زیادہ ہے۔ اور وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا باغ میں داخل ہوا اور کہنے لگا: مجھے گمان نہیں ہے کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا اور نہ مجھے اس پر یقین ہے کہ کبھی قیامت قائم ہوگی۔ اور اگر (بالفرض) میں اپنے ربّ کی طرف لوٹایا (بھی) گیا تو وہاں بھی میں اس سے بہتر مقام پاؤں گا۔ اس کے ساتھی نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا: کیا تم اُس ذات کا انکار کر رہے ہو جس نے تم کو مٹی سے بنایا، پھر نطفے سے، پھر تمہیں مکمل انسان بنایا، لیکن (میں کہتا ہوں:) وہ اللہ ہی میرا ربّ ہے اور میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراؤں گا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم باغ میں داخل ہوئے تھے تو کہہ دیا ہوتا: جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے) اور اللہ کی مدد کے بغیر کسی کا بس نہیں چلتا، اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ میں مال اور اولاد کے لحاظ سے تم سے کم ہوں، تو وہ دن دور نہیں کہ میرا ربّ مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے باغ پر آسمان سے کوئی عذاب بھیج دے تو وہ چٹیل چکنا میدان بن جائے یا اس کا پانی زمین میں جذب ہوجائے، پھر تم اس کو ہرگز نہ پاسکو۔ اور اُس شخص کے پھل (عذاب میں) گھیر لیے گئے اور اس نے اس باغ میں جو خرچ کیا تھا وہ اس (کے تلف ہونے) پرکَفِ افسوس ملتا رہ گیا، وہ باغ اپنی چھپریوں پر گرا پڑا تھا اور وہ کہنے لگا: کاش میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا، (الکہف: 32-42)‘‘۔
آج انسان مال ودولت کی محبت میں ڈوب کر جائز وناجائز کی تمام حدود کو پامال کرنے پر تُلا بیٹھا ہے، لیکن اِس کا انجام بڑا عبرت ناک ہوگا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے مخاطب!) کاش تو (اُس منظر کو) دیکھتا جب اُن (کافروں) کو دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا، اُس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں لوٹادیا جائے اور ہم اپنے ربّ کی نشانیوں کی تکذیب نہ کریں اور مومنوں میں سے ہوجائیں، بلکہ اب اُن پر وہ حقائق منکشف ہوگئے ہیں، جن کو وہ پہلے چھپاتے تھے اور اگر وہ دنیا کی طرف لوٹابھی دیے جائیں تو پھر وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بے شک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں: ہماری (ساری متاع) تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم دوبارہ زندہ کرکے نہیں اٹھائے جائیں گے۔ اور کاش تو وہ منظر دیکھتا، جب اُن کو اُن کے ربّ کے حضور کھڑا کیا جائے گا، (تو) اللہ فرمائے گا: کیا یہ (موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنا) حق نہیں ہے، وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! کیوں نہیں، (یقیناًحق ہے)، (تو) اللہ فرمائے گا: سو اپنے کفر کے سبب اب عذاب (کا مزہ) چکھو، (الانعام: 27-30)‘‘۔
ہمارے اہلِ اقتدار کا رویہ بھی یہی ہے کہ جب وہ اقتدار سے معزول ہوتے ہیں یا انہیں معزول کردیا جاتا ہے، تو ببانگ دہل وہ یہ کہتے ہیں: ’’اب ہم نے سبق حاصل کرلیا، اب ہم ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہیں کریں گے‘‘۔ لیکن جب پھر انہیں موقع ملتا ہے تو انہی تجربات کو دہراتے ہیں، جن کی پاداش میں انہیں ابتلا کے دور سے گزرنا پڑا۔ کاش کہ ہم اپنے ہی تجربات سے سبق حاصل کرلیں اور غلطیوں کا اعادہ کرنے کے بجائے ماضی کی غلطیوں کی تلافی کریں۔ اپنا احتساب نہ کرنا، اپنے گریبان کے اندر نہ جھانکنا، یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے اور اس میں برسرِ اقتدار اور اقتدار کے طلب گار دونوں طبقات شامل ہیں۔