ہے کوئی کراچی کا وارث

245

کراچی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس شہر کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے ۔ جگہ جگہ بہتے گٹر ، کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹی سڑکیں کسی بھی انجان آدمی کو شہر کی کسمپرسی بتانے کے لیے کافی ہیں ۔ رہی سہی کسر تجاوزات کے نام پر توڑ پھوڑ نے پوری کردی ہے ۔ بلا کسی منصوبے کے یا کسی خاص منصوبے کے تحت اچانک شہر میں دن رات توڑ پھوڑ شروع کردی گئی ۔ اس توڑ پھوڑ کے بعد اب ملبے کو اٹھانے والا کوئی نہیں ہے ۔ شہر کی حالت تو کیا سدھرتی ، اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے غنیم کی فوج کراچی کو چھوڑ کر ابھی گئی ہے ۔ ہر سو صرف اور صرف تباہی کے آثار ہیں مگر یہ چیزیں صرف انہیں ہی نظر نہیں آتی ہیں جن کی یہ ذمہ داری ہے ۔ جب بھی کراچی میں کام کرنے کی بات کی جائے تو میئر کراچی کے پاس ایک ہی عذر ہے اور وہ ہے اختیارات کا نہ ہونا۔ تاہم جب کراچی میں توڑ پھوڑ کی بات آئی تو نہ ہی اختیارات کی کمی مانع آئی اور نہ ہی فنڈز کی قلت ۔ شہر میں مشکوک توڑ پھوڑ کے لیے حیرت انگیز طور پر بحریہ ٹاؤن کی مشینری مفت میں پہنچ گئی ۔ جب بھی کراچی میں صفائی کی بات ہو تو میئر کراچی کے پاس فنڈز ہی نہیں ہوتے ۔ پتہ نہیں کراچی کی گلیوں اور سڑکوں کی صفائی ستھرائی کے لیے بھرتی کیے گئے سارے خاکروب سلیمانی ٹوپی لگا کر کہاں غائب ہوگئے ہیں ۔ کاغذات میں تو کچرا روز اٹھتا ہے اور اس کے لیے ماہانہ بھاری رقم کا بل بھی بنتا ہے مگر ہر طرف اٹھتا ہوا دھواں بتاتا ہے کہ یہ کچرا کہاں جارہا ہے ۔ کراچی کے باسی اس وقت ہر طرح کی آلودگی کا شکار ہیں ۔ اس کا تاوان بھی یہ شہری ہی ادا کرتے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں ۔ جو لوگ روز دو وقت کی روٹی کی فکر میں سرگرداں ہیں ، وہ میڈیکل کا بل بھی ادا کرنے پر مجبور ہیں ۔ میئر اور ضلعی میونسپلوں کے سربراہان شہر کی صفائی ستھرائی اور سہولتوں کے ذمہ دار ہیں ۔ ان سب کی کارکردگی ہر ایک کے سامنے ہے مگر یہ ذمہ دار نہ تو کام کرنے پر تیار ہیں اور نہ ہی مایوس کن کارکردگی پر شرمندہ ہیں ۔ صرف سیوریج اور کچرے کے مسائل ہی اگر حل کرلیے جائیں تو اہل کراچی پر بہت بڑا احسان ہوگا ۔ سیوریج کا پانی شہر کے لیے کئی طرح کی مصیبت لاتا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ سڑکوں کے لیے قاتل ثابت ہوتا ہے اور کروڑوں روپے کی بنی سڑکیں دیکھتے ہی دیکھتے ہی ریت کا ڈھیر ثابت ہوتی ہیں ۔ کئی روز کے بعد جب سیوریج کے پانی کا مسئلہ حل ہوتا ہے تو نیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ وہ یہ کہ سیوریج کے کچرے پر مشتمل ریت پورے شہر میں اڑتی پھرتی ہے اورمختلف قسم کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے جس میں سانس اور آنکھ کی بیماری اور مختلف قسم کی الرجی بھی شامل ہیں ۔ سیوریج کے پانی پر پلنے والے مچھر اور مکھیاں الگ سے شہریوں کے لیے نئی آفت کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی پاکستان کے کسی گاؤں سے بھی بدتر تصویر پیش کررہا ہے ۔ اس کو کون دیکھے گا اور کب دیکھے گا ؟یہ بھی اسی وقت پتا چلے گا جب اس خاص منصوبے پر عمل ہو رہا ہوگا جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اس کی خاطر شہر کو اجاڑا گیا ہے۔وہ منصوبہ سیاسی بھی ہوسکتا ہے اور معاشی بھی۔