نواز شریف کو سزا ۔۔۔ باقی کا احتساب کب ہوگا

222

پاکستان کے پورے میڈیا میں 24دسمبر اور 25دسمبر صرف میاں نواز شریف کے خلاف ریفرنس اور ان کی سزا کی خبروں، تبصروں، تجزیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ 24دسمبر کی صبح سے ٹی وی چینلز ایسے نشریات کررہے تھے جیسے کوئی کرکٹ یا فٹ بال میچ ہو رہا ہو ایک ایک لمحے کی رپورٹنگ ہو رہی تھی۔ پھر دو ڈھائی بجے تک تماشا دکھانے کے بعد سابق منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ 5ارب روپے جرمانہ بھی ہوگا۔ احتساب عدالت نے قرار دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کرپشن کے مرتکب ہوئے ذرائع آمدن نہیں بتا سکے۔ اس سزا پر مسلم لیگ ن نے ردعمل دیا ہے کہ بندوقیں تان کر نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنایا گیا یہ انتقام کی آخری ہچکی تھی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کی جائداد منجمد کرنے ، زرداری کو منی لانڈرنگ سربراہ اور بلاول کو بینیفشری قرار دینے پر تبصرہ کیا ہے کہ ثابت ہوگیا کہ احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے حکومت کب شکنجے میں آئے گی۔ لیکن ایک تبصرہ نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو نے بھی کیا ہے کہ فیصلے سے عدالتی وقار پر حرف آئے گا۔ لگتا ہے کہ فیصلہ جبری طور پرکرایا گیا۔ نیب جرم ثابت نہیں کرسکا فیصلہ کہیں اور سے بن کر آیا جج نے پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے پیش گوئی بھی کردی کہ آئندہ دو سال میں نیب کے ذریعے 70سیاست دانوں کو سیاست سے نکالنے کے لیے جھوٹے مقدمات بنائے جائیں گے۔امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے پھر مطالبہ کیا ہے کہ قوم سب کا احتساب چاہتی ہے۔ میاں نواز شریف کیخلاف ریفرنس ہو یا آصف زرداری کے خلاف کارروائی یہ سب کچھ انتخابات کے بعد نئے موڑ مڑ کر نئی شکل اختیار کرچکا ہے اور کوئی کچھ بھی کہے تاثر یہی بنتا ہے کہ احتساب کے لیے کچھ لوگوں کا انتخاب کیا گیا ہے اور صرف اپوزیشن نشانہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سراج الحق نے پاناما لیکس پر کارروائی ہوتے ہی مطالبہ کیا تھا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ اس سارے عمل میں بعض باتیں حیرت ناک ہیں۔ ذرائع آمدن چھپانے کا مقدمہ نواز شریف پر بنا۔ انہیں تنخواہ چھپانے پر نا اہل قرار دیا گیا لیکن اب بیٹے سے رقم لینے پر سزا سنائی گئی۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان کے شوکت خانم کے لیے غیر ملکی فنڈز کا معاملہ ، بنی گالا کا مکان، بے ضابطگی اور اضافی زمین ہتھیانے کا معاملہ ہو یا ان کی بہن کے اثاثوں کا معاملہ اور ساتھیوں کے مالی معاملات ،مقدمات اور فیصلوں میں فرق صاف نظر آرہا ہے۔ یہ کہنا تو بے جا ہوگا کہ میاں نوازشریف بالکل معصوم اور بدعنوانیوں سے پاک ہیں لیکن جس انداز کے مقدمات بنے اور سزائیں دی گئی ہیں ان کی روشنی میں یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں میاں نواز شریف و شہباز شریف عدالتوں سے بر ی بھی ہو جائیں۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو 38برس بعد عدالتی قتل قرار دلوایاجاسکتا ہے تو بدعنوانی کے ڈھیلے ڈھالے مقدمے کو تو چٹکیوں میں جھوٹا قرار دلوایا جاسکتا ہے۔ عدالتی نظام کا حال یہ ہے کہ احتساب عدالت کو آصف زرداری کے خلاف مقدمے میں 17برس بعد پتا چلا کہ فوٹو کاپی کی بنیاد پر ثبوت قبول نہیں کیے جاسکتے۔ 17برس تک یہ مقدمہ عدالت میں پڑا رہا۔ کسی نے احتساب عدالت سے سوال نہیں کیا کہ مقدمہ کو قابل سماعت قرار دینے والے جج اور بعد میں پیشیوں پر پیشیاں بھگتانے کے باوجود فاضل جج کو یہ پتا نہیں چلا کہ فوٹو کاپی ثبوت نہیں ہوتی۔ اس کیس پر کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے اور 17برس تو ضائع کردیے گئے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے خلاف مقدمات کو جو نان اسٹاپ اسپیڈ لگی ہے اس کا کھلا تاثر انتقام کا ہے۔ کون کیوں کس سے لے رہا ہے اس کے لیے بھی ایک غیر جانبدار کمیشن بنانے کی ضرورت ہے۔ گو اس کی رپورٹ بھی ملنے کا امکان نہیں ۔ یہ تیز رفتاری حادثے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔