علی رضا عابدی کا قتل کیوں؟ 

251

دنیا میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کم عمری میں سیاست میں آکر مختصر عرصے میں نمایاں مقام حاصل کرکے محض 46 سال کی عمر ہی میں زندگی کو خیرباد کہہ جاتے ہیں۔ سید علی رضا عابدی بھی ان ہی شخصیات میں سے ایک تھے۔ 6 جولائی 1972 کو پیدا ہونے والے علی رضا عابدی کی زیادہ سے زیادہ 18 سالہ سیاسی زندگی کا آغاز خون سے آلودہ سیاست کے ماحول میں ہوا اور پھر 25 دسمبر کو خود ان کا خون ہوگیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں وہ متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ وہی انتخابات تھے جس کی مہم کے دوران تحریک انصاف کی خواتین ونگ کی رہنما زہرہ شاہد ’’نامعلوم افراد‘‘ کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں تھیں۔ زہرہ شاہد کی جائے قتل بھی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی تھی۔ انہیں بھی دو موٹرسائیکل سواروں دہشت گردوں نے ان کے اپنے گھر کے قریب گولیوں کا نشانہ بنایا تھا اور علی رضا عابدی کو بھی دو نامعلوم افراد نے ان کے گھر کے دروازے پر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اور ڈیفنس سوسائٹی میں قتل کیے جانے والی سیاسی شخصیات کو ان کے بنگلوں کے قریب ہی فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے مقامی سطح کے رہنما شہنشاہ خالد کو بھی چند سال قبل ان کے گھر کے نزدیک قتل کردیا گیا تھا۔ اتفاق تو یہ بھی ہے کہ تینوں واقعات کے ملزمان ’’دفاعی ایریا‘‘ میں وارداتیں کرکے فرار بھی ہوجاتے ہیں اور کوئی انہیں نہیں پکڑتا حالاں کہ تینوں شخصیات اکثر اپنے ساتھ محافظ بھی رکھا کرتی تھیں۔
علی رضا عابدی کا قتل اس لحاظ سے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ یہ قدر پرامن ماحول میں ہوا۔ ان حالات میں جن میں لوگوں میں اس طرح کی وارداتوں کا خوف ختم ہورہا تھا۔ 2013 تک تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات عام تھے روزانہ ہی کسی نہ کسی علاقے میں قتل و غارت کے واقعات ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ سلسلہ تھم چکا تھا بلکہ ختم ہوگیا تھا۔ یہ وہی تسلسل تھا جو، 1992 میں ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے‘‘۔ سے شروع ہوا تھا۔ علی رضا عابدی کے قتل سے محض 48 گھنٹے قبل رضویہ سوسائٹی تھانے کی حدود عثمانیہ سوسائٹی میں پاک سر زمین پارٹی کے دفتر پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں پی ایس پی کے دو کارکن جاں بحق اور دو زخمی ہوئے۔ مرنے اور زخمی ہونے والے کوئی اور نہیں ایم کیو ایم کے سابق ’’وفادار‘‘ تھے جنہوں نے الطاف حسین کی سیاست سے تنگ آکر بغاوت کرکے پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ علی رضا عابدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ماضی قریب کی اس خوف کی سیاست میں خود کو بچانے کے ساتھ سب دوستوں کا تحفظ بھی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ ایم این اے منتخب ہونے کے بعد کچھ عرصہ امریکا اور لندن میں بھی مقیم رہے وجہ خوفناک سیاسی ماحول تھا۔ وہ شہید نعت خواں امجد صابری کے بھی مخلص دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے اور امجد صابری بھی ان سے اسی وجہ سے محبت کیا کرتے تھے۔ علی رضا عابدی ان دنوں ڈاکٹر فاروق ستار کے قریب تھے مگر وہ 23 اگست 2016 کے چند ماہ بعد پیدا ہونے والی صورتحال خصوصاً بہادرآباد اور پیر کالونی گروپس کی وجہ سے خوش نظر نہیں آتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر کی مہاجروں کی ایک نئی ’’یونٹی‘‘ بنانے کے لیے ان کے موقف سے متفق ہوگئے تھے۔
پی ایس پی کے کارکنوں اور علی رضا کے قتل سے قبل ایسا کیا ہوا تھا کہ دہشت گرد اچانک فعال ہوگئے۔ میرا خیال ہے کہ بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی کو کراچی کے امن و امان کی بہتر ہوتی ہوئی صورتحال ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ اس وجہ سے اس نے ایک بار پھر پاکستان میں ’’سرجیکل وار‘‘ کا آغاز کیا۔ اسی کے تحت دوبارہ کراچی کے امن کو تباہ کرکے ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی گئی یا کی جارہی ہے۔ بھارت کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ملک کے ’’آستین کے سانپ‘‘ باآسانی مل جاتے ہیں اور ملک سکتے ہیں۔
مجھے یہ شکوک شبہات اس لیے ہیں کہ 2008 سے 2013 بلکہ 15 تک ملک کی صورتحال ایسی حکومتوں کے دور میں خراب رہی ہے جو اپنے آپ کو جمہوری حکومتیں کہا کرتی تھیں لیکن جمہور غیر محفوظ تھے۔ ان جمہوری حکومت کے سیاسی ایکٹر ان دنوں احتساب کے سخت قانونی عمل سے شدید پریشان ہیں۔ جبکہ کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کی ذمے دار جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (لندن) اور عوامی نیشنل پارٹی اپنے مستقبل کے حوالے سے شاکی ہیں۔ ان کا یہ سمجھنا درست ہے کہ اگر کرپشن اور کریمنلز کے خلاف اسی طرح سخت کارروائیاں جارہی رہیں اور ملک خصوصاً کراچی میں امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہوگئی تو انہیں سیاست کے نام پر جاری اپنا ’’کاروبار‘‘ بند کرنا پڑے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ملک دشمن عناصر کو اپنی مسلسل ناکامی کا احساس اس وقت زیادہ ہوا ہوگا جب رات کو کراچی میں بلا خوف کرکٹ کھیلنے والے بچوں کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے انہوں نے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کی ویڈیو دیکھی ہوگی۔ ایسی پرامن صورتحال کو وہ کیوں کر برداشت کرسکتے ہیں حالاں کہ ان ملک دشمن عناصر کا ’’پٹھو‘‘ بھی پائی پائی کا محتاج ہوکر کارکنوں ہی سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوچکا ہے۔