اِن ہاؤس تبدیلی کا نعرہ

172

مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد اعلان کیا ہے کہ فیصلے میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ۔ اِن ہاؤس تبدیلی کی جد وجہد کریں گے ۔ اس کام کے لیے اپوزیشن سے مل جائیں گے ۔ مسلم لیگی رہنما رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ عوام کو جلد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اچھی خبریں ملیں گی ۔ اپوزیشن کی دوسری اہم جماعت پیپلز پارٹی نے بھی جدو جہد جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔اور توقع کے عین مطابق مسلم لیگ نے سوال پوچھا ہے کہ جہانگیر ترین علیم خان اور علیمہ سے بھی پوچھا جائے کہ پیسے باہر کیسے پہنچے۔۔۔ مسلم لیگ ن ، میاں صاحب کی سزا کے بعد جس فیصلے پر یکطرفہ طور پر پہنچی ہے اس پر الیکشن سے قبل یا اس کے فوراً بعد پہنچنا چاہیے تھا الیکشن سے قبل حکمت عملی اختیار کی جاتی کہ کہیں ووٹ کٹنے سے پی ٹی آئی کو فائدہ تو نہیں ہو رہا ۔ اسی طرح الیکشن کے بعد جب اسپیکر کا انتخاب ہو رہا تھا اس وقت بھی نہایت بھونڈی سیاست کی گئی ۔۔۔ اعتزاز احسن کو اسپیکر کا امید واربنایا تھا گیالیکن ان کے نام کو قبول کرنے کے لیے میاں نواز شریف سے معافی مانگنے کی شرط رکھ دی گئی ۔ اس معاملے پر مذاکرات کے بجائے ضد بحث کر کے جملے بازی میں وقت گزارا گیا ۔ اور جب اسپیکر کا انتخاب ہو گیا تو وزیر اعظم کے انتخاب میں بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ آصف زرداری صاحب جن پر سینیٹ الیکشن کے وقت نوٹوں کی بوریاں نہیں کنٹینر کھولنے کے الزامات لگائے گئے ۔ انہیں چند بوریوں میں دس بارہ ووٹوں کی خریداری کرنا تھی ۔ آج سات ووٹوں کی حکومت کا طعنہ دینے کی نوبت نہیں آتی ۔ بات یہ ہے کہ حکومت کی اکثریت سات ووٹوں کی ہو یا ایک ووٹ کی ۔۔۔ اب حکومت بن گئی ہے اور آسانی سے نہیں ٹوٹ سکتی ۔۔۔ ن لیگ کا یہ دعویٰ بھی یکطرفہ ہے کہ اپوزیشن سے مل کر ان ہاؤس تبدیلی لائیں گے ۔ تبدیلی تو ان ہاؤس ہی ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے حکمت عملی درست ہونی چاہیے ۔ ایوان لوٹوں اور الیکٹ ایبلز سے بھر دیا جائے تو کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی ۔۔۔ اس سے قبل جب مسلم لیگ ن نے شہباز شریف کے مسئلے پر اسی قسم کی دھمکی دی تھی تو پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ ، اعتزاز احسن اور پھر بلاول اور آصف زرداری نے بھی کہہ دیا کہ حکومت نہیں گرائیں گے ۔ عمران خان اطمینان سے حکومت کریں۔۔۔ خرابی یہی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے اقتدار کے لیے ایسے لوگوں کو ایوان میں لاتے ہیں جو کسی نہ کسی دباؤ کی وجہ سے اپنی پارٹی چھوڑ کر حکمران پارٹی یا متوقع طور پر حکومت میں آنے والی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں یہ لوگ پہلے ہی دباؤ میں ہوتے ہیں ۔ ضمیر کے مطابق فیصلے کس طرح کریں گے ۔ اور اگر ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے والے ہوتے تو الیکٹ ایبل بننے کے بجائے سیاستدان بنتے۔۔۔ ن لیگ کے یکطرفہ اعلان کو24 گھنٹے سے زیادہ گزر جانے کے باوجود پیپلز پارٹی نے ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا ۔ یہ خاموشی بھی ایک اشارہ ہے کہ کوئی ان ہاؤس تبدیلی نہیں آ رہی ۔اسپیکر الیکشن اور وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت صاف نظر آ رہا تھا کہ پی پی اور مسلم لیگ دونوں دباؤ میں ہیں اگر تبدیلی لانا ہی چاہتے ہیں تو اس کے لیے مسلم لیگ اور خصوصاً میاں نواز شریف کو جھکنے کی عادت ڈالنا ہو گی ۔ انہیں ان کی اکڑ اور تکبر نے بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی پارٹیاں تو اپنے اولین مخالف سے بھی مذاکرات کرتی ہیں۔1973ء کا دستور اس کا بہترین ثبوت ہے ۔ بھٹو کے شدید ترین مخالفین دستور سازی میں ایک پیچ پر تھے اور بار بار مل بیٹھنے سے بہت کچھ بہتر ہو جاتا ہے لیکن جو گفتگو اور زبان فیصلے کے بعد سے تینوں پارٹیاں استعمال کر رہی ہیں یہ رویہ تو ایوان کا اجلاس بھی نہیں چلنے دے گا ۔ تبدیلی کیا لائے گا ۔ میڈیا کو جھنجھنا مل گیا ہے ۔ بریکنگ نیوز کے نام پر ایک دوسرے کی گالیاں سنا رہا ہے ۔ مسلم لیگ ن اب بھی سنجیدہ نہیں ۔ اگر میاں نواز شریف کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات ہیں سزائیں ہو رہی ہیں تو ان کو لیڈر بنائے رہنے کی ضد پر اڑے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا ۔ ان کی اپنی صفوں میں بھی بہت سے مسائل ہیں ۔ قیادت شہباز شریف کے پاس رہے گی یا مریم کے پاس ۔ یہ مسائل بھی تو حل کریں ۔