مدینے جیسی ریاست

238

اسلام کا سیاسی سفر عالی مرتبت ؐ کی ہجرت سے شروع ہوتا ہے۔ اس سفر میں آپؐکی پہلی منزل ریاست مدینہ کا قیام تھا۔ اہل مکہ کے ظلم وستم یا جان کا خوف مدینے کی جانب ہجرت کی وجہ نہیں تھا۔ عالی مرتبت ؐ 13برس قریش کے تشدد اور ایذا کو برداشت کرتے رہے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ اس دوران آپ ؐ نے دین اسلام پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ تیرہ برس کی کامل جدوجہد اور تبلیغ کے باوجود اہل مکہ شرک پر سختی سے قائم رہے۔ اُدھر مدینے میں سیدنا مصعب بن عمیرؓ کی دعوت کے نتیجے میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اوس اور خزرج کے سردار بھی اسلام قبول کرچکے تھے۔ وہ اپنی جان ومال سے اسلام کے تحفظ کے لیے تیار تھے۔ مدینہ اسلام کا نقطہ آغاز بننے کے لیے تیار تھا۔ رسول کریم ؐ کی مدینہ آمد کا مقصد ایک طرف اسلام کی دعوت کا فروغ تھا تو دوسری طرف اسلامی ریاست کا قیام۔ ختم المرسلین ؐ کی دعوت ایک متعین ہدف کے حصول کے لیے تھی کہ کسی خطہ زمین پر اسلام کی اتھارٹی اور حکمرانی کو قائم کرکے اسلام کو غالب کیا جائے۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو (الصف: ۹)‘‘۔
مدینہ میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے۔ ان میں یہود اور نصاریٰ بھی تھے اور اوس اور خزرج بھی۔ آپ ؐ نے سب کو اس تاریخی معاہدے کے پرچم تلے کھڑا کردیا جسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس ریاست کی جس کا یہ معاہدہ پرچم تھا اساس اسلام تھی۔ مدینہ کی ریاست کے بعد دوسرا ملک جو اسلام کی اساس پر قائم ہوا اس کا نام پاکستان ہے اور یہ محض اتفاق نہیں کہ اس کے دارالحکومت کا نام اسلام آباد ہے۔ ریاست مدینہ کو استحکام تب نصیب ہوا تھا جب غزوہ بدر میں عمر بن ہشام (ابو جہل) کے سینے میں نیزہ پیوست ہوا۔ یہ دراصل کفر کے سینے میں نیزہ تھا۔ آج پاکستان کا بحران نہ معاشی ہے اور نہ دفاعی، پاکستان کا اصل بحران یہ ہے کہ پاکستان کو ہم نے اسلام اور کفر کے معرکے سے الگ کردیا ہے۔ اس عہد کے عمر بن ہشام یا ابو جہلوں کے سینے میں نیزہ اتارنے کے بجا ئے ہم انہیں دوست سمجھتے ہیں اور ان کے اتحادی ہونے کو فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ ہم نہ پاکستان کو اس کی اساس سے منسلک کرنے پر تیار ہیں اور نہ عالم کفر سے اس کا تعلق طے کرنے پر۔
مدینے جیسی ریاست دراصل ’’روح اسلام‘‘ کو ریاست اور حکومت میں داخل کرنے کا عمل ہے۔ علامہ اقبالؒ کی فکر کا مرکز و محور یہی سوچ تھی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جسے وجود دیا۔ گزشتہ ستر برس میں پاکستان کا اسلام سے رشتہ مضبوط کرنا تو درکنار ہم یہ رشتہ قائم بھی نہیں کرسکے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سول اور فوجی حکمران یہ رشتہ جوڑنا ہی نہیں چا ہتے۔ ہم پر جو لوگ حکمران ہیں بظاہر ہم میں سے ہیں، ان کے نام بھی اس تہذیب کے عکاس ہیں جس کا ماخذ اسلام ہے لیکن نہ یہ ہم میں سے ہیں اور نہ ان کا جینا مرنا ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ کفر کی قوتوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ہمارے لیے ندامت کے سوا کچھ نہیں۔
’’مدینے جیسی ریاست‘‘ محض ایک سیاسی نعرہ نہیں ہے۔ پاکستان ریاست مدینہ کا تسلسل ہے۔ اگر پاکستان اس تا ابد قائم رہنے والی ریاست سے اپنا رشتہ نہیں جوڑتا تو اس کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا ہمیں ایسے پاکستان کی ضرورت نہیں خواہ اس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں۔ اس رشتے کے قائم کرنے میں رکاوٹ یہ سول اور فوجی قیادت ہے جس نے ستربرس گزر جانے کے باوجود سرمایہ
دارانہ نظام اور سود کو اس ملک کی معیشت کا لازمی حصہ بنا رکھا ہے۔ وہ سود جسے اللہ جل جلالہ اور اس کے حبیب محمد ؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے، جسے ماں سے زنا کی مثل کہا گیا ہے۔ سود کی تمام تر ہلاکت آفرینی کے باوجود کہ قومی دولت محض چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ جاتی ہے سود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے عوام امریکا کو اپنا بھارت سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے انگریزوں سے آزادی کے بعد انہیں امریکا کا غلام بنادیا ہے۔ امریکی سامراج کو ان پر مسلط کردیا ہے۔ پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا اس ملک میں قوانین کا ماخذ قرآن وسنہ ہوگا لیکن گزشتہ ستربرس سے پاکستان کی چھوٹی بڑی عدالتیں، عالیہ اور عظمی اینگلو سیکسن قانون کے مطابق فیصلے صادر کر رہی ہیں۔ افواج پاکستان کو اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے استعماری ممالک کی فوج بن کر استعماری مفادات کے لیے کہیں بھی بھیجا جاسکتا ہے اگر نہیں بھیجا جاسکتا تو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی درندوں کو ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو ریزی کرتے ہوئے، ہمارے کشمیری بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے ہرگز یہ خوف نہیں ہوتا کہ ذرا ہی فاصلے پر ان مظلوموں کے بھائی بند رہتے ہیں جن کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو وہ اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی فریاد سن کر آجائیں۔ اللہ کی آخری کتاب یہود ونصاریٰ کو مسلمانوں کو تا ابد دشمن قرار دیتی ہے لیکن یہود و نصاریٰ ہمارے حکمرانون کے دوست ہی نہیں آقا ہیں۔ تاریخ کی طاقتور ترین سپر پاور امریکا دیگر چالیس انتہائی ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مل کردنیا کے پسماندہ ترین اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کرتی ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان پر خوفناک ترین بمباری کرنے کے لیے ہم اتحادی افواج کو فضائی اڈے مہیا کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں تمام تر ہرزہ سرائیوں کے باوجود ان کی افواج کو سور کا گوشت، شراب اسلحہ پہنچانے کے لیے راہداری مہیا کرتے ہیں۔ اب جب کہ امریکا کو خطے میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے مذاکرات اور ایک سیاسی تصفیہ کی ضرورت ہے ہم اس کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں جب کہ ہم نے قابض امریکی افواج کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین کی کبھی اخلاقی مدد کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ صلیبی افواج کے ساتھ مل کر ہم بھی انہیں دہشت گرد کہنے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اسلام کے داعی انتہا پسند اور نفرت انگیز مواد پھیلانے کے حوالے سے یاد کیے جانے لگے ہیں۔
ہماری جماعتیں اسلام کا نام لیتی ہیں، مدینہ جیسی ریاست آج ایک مقبول نعرہ ہے لیکن فریب دینے کے لیے۔ مدینے جیسی ریاست خلافت کسی کی منزل نہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اسی سوچ اور فکر کی علمبردار ہیں پاکستان میں جسے فروغ دینے اور قائم کرنے کے لیے امریکا این جی اوز اور پاکستانی میڈیا میں اپنی سر مایہ داری اور اثر ونفوذ کے ذریعے پوری قوت سے بروئے کار ہے۔ روشن خیالی، سیکولرازم اور لبرل ازم کے نام پر پاکستان کی اسلامی شناخت اور اسلامی اقدار پر بھرپور حملہ کیا جارہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے عرض یہ ہے کہ ہمیں تمام تر نفرت اور حقارت کر ساتھ ان حکمرانوں کو دھتکارنا ہوگا جو اپنی ذات اور امریکا کے ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ جن کے مقاصد سیاست میں اسلام کہیں موجود نہیں۔ جو سیکولرازم، لبرل ازم اور روشن خیالی کے برش سے اپنے بیرونی آقاؤں کے جوتے پالش کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی بد اعمالیاں پاکستان اور اسلام کے حوالے سے ہمارے حوصلوں کو پست کررہی ہیں۔ ہمیں ازسر نو اسکرپٹ لکھنا ہوگا اور اس اسکرپٹ کا عنوان میرے آقا محمد ؐ کا یہ فرمان ہوگا ’’اسلام کے علاوہ سب رد ہے۔‘‘ یہی فرمان مدینے جیسی ریاست کا آئین اور قانون ہوگا۔