پاکستان کے حکمران طبقے اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے ملک میں اسلام کی توہین کو معمول بنادیا ہے۔ دنیا کے کسی سوشلسٹ ملک میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص کھلے عام سوشلزم کا مذاق اڑائے گا۔ امریکا اور یورپ میں گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی شخص ان کے تصور آزادی اور ان کے تصورِ جمہوریت کی توہین کرے گا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی تذلیل حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
یہ کل ہی کی بات ہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اقلیتی رکن رمیش کمار نے شراب پر پابندی کا بل پیش کیا تو تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے بل کی زبردست مخالفت کی۔ چناں چہ شراب پر پابندی کے بل پر رائے شماری کی نوبت ہی نہ آسکی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اللہ اور اس کے رسولؐ اور اللہ کے دین کے خلاف کھلی بغاوت کا منظر تھا۔ اس لیے کہ شراب ازروئے قرآن حرام ہے اور احادیث مبارکہ میں شراب کے کاروبار میں شریک لوگوں تک کے لیے سخت و عیدیں موجود ہیں۔ مگر تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے خدا اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ہوتی تو شراب پر پابندی کا بل دس منٹ میں قانون بن جاتا۔ ایسا ہوجاتا تو یہ بات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شایانِ شان ہوتی۔ اس لیے کہ یہ اسلام ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ اسلام نہ ہوتا تو پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے لوگ ہندوؤں کے دائمی غلام ہوتے۔ حقیر غلام۔
عمران خان کہنے کو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر ان کی جماعت نے شراب پرستی کا خنجر پاکستان کے سینے میں اتارتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہ کیا کہ ریاست مدینہ میں شراب کی سرپرستی کی کیا اس کا نام لینے کی بھی گنجائش نہیں۔ اس سلسلے میں عمران خان کے نفس امارہ اور اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے تو حد ہی کردی۔
انہوں نے جیو کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے معاذاللہ اللہ تعالیٰ کو بھی ’’طالبان‘‘ بنادیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا کہ اب شراب پر پابندی لگادیں گے تو اس کے بعد مطالبہ آئے گا کہ عورتیں گھروں سے نہ نکلیں، اس کے بعد مطالبہ آئے گا کہ اقلیتوں پر جزیہ لگادیں۔ یہ اسلام کی جو تشریح کرتے ہیں وہ تشریح تو طالبان کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے یا نہیں! یہاں جو شخص اٹھتا ہے کہہ دیتا ہے فلم پر پابندی لگادو، شیشہ بند کردو، عورتیں گھروں سے باہر نہ نکلیں ان پر پابندی لگادو۔ کتنی چیزوں پر پابندی لگائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں میں تنقیدی سوچ افغانستان سے آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست رحم پر مبنی ریاست تھی۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 16 دسمبر 2018)
اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا الف بھی موجود ہوتا تو فواد چودھری کو اسلامی ریاست اب تک پھانسی پر لٹکا چکی ہوتی۔ اس لیے کہ اس بیان میں اسلام کی کھلی توہین موجود ہے۔ شراب پر پابندی قرآن کا حکم ہے، قرآن کا حکم اللہ کا حکم ہے مگر فواد چودھری قرآن کے حکم کو ’’طالبان کی تشریح‘‘ باور کرارہے ہیں۔ معاذاللہ کیا شراب پر پابندی کا حکم طالبان کی ایجاد ہے؟ یہ بھی اسلام کی کھلی توہین اور اس کی کھلی تذلیل ہے۔ قرآن کے بعض احکامات ایسے ہین جن کی ایک سے زیادہ تعبیرات کی گئی ہیں، مثلاً پردے کے سلسلے میں بعض فقہا چہرے کے پردے کے قائل ہیں اور بعض فقہا چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں مگر شراب پر پابندی کی چودہ سو سال سے ایک ہی تشریح اور ایک ہی تعبیر ہے اور وہ یہ کہ شراب حرام ہے اور شراب پینا تو درکنار اس کا کاروبار کرنا بھی حرام ہے۔ مگر عمران خان کے نفس امارہ فواد چودھری کا بیان یہ ہے کہ جو شراب پر پابندی کی بات کرتا ہے وہ گویا طالبان کی زبان بولتا ہے یا طالبان نے اسلام کی جو تشریح و تعبیر کی ہے اس پر ایمان لاتا ہے۔ یہ اسلام پر کھلا حملہ ہے اور اس سے معاشرے میں اسلام کے خلاف کھلی بغاوت کے جذبات کو ہوا ملے گی۔ اسلام کے باغی کہیں گے فواد چودھری جیسا معمولی اور حقیر شخص اتنی بڑی بات کہہ سکتا ہے تو ہم بھی اسلام کے خلاف کچھ نہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں۔
فواد چودھری نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم شراب پر پابندی لگا دیں گے تو پھر مطالبہ آئے گا کہ عورتوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگاؤ۔ پھر کہا جائے گا اقلیتوں پر جزیہ لگاؤ۔ فواد چودھری دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم نے قرآن کا ایک حکم مان لیا تو پھر قرآن کا دوسرا حکم ماننے پر اصرار کیا جائے گا اور پھر تیسرے حکم کو سامنے لاکر کہا جائے گا کہ اب اسے بھی مانو۔ واہ عمران خان کی ریاست مدینہ کے وفاقی وزیر کی کیا اسلام پرستی ہے۔ اسے اسلام کے ایک حکم پر عمل درآمد کے بعد ’’اندیشہ‘‘ ہے کہ پھر خدا اور رسولؐ کا کوئی دوسرا حکم ماننے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ پھر تیسرا حکم بھی ماننے پر اصرار کیا جائے گا۔ اس طرح تو سارے کا سارا اسلام ہی نافذ ہوجائے گا۔ یہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے 22 کروڑ عوام کے ساتھ بڑی زیادتی ہوجائے گی۔ آخر پاکستان اسلام پر عمل کے لیے تھوڑی بنا تھا وہ تو جرنیلوں اور ان کے آلہ کار عمران خان کی عیاشیوں کے لیے بنا تھا۔
بدقسمتی سے ہمارے جرنیل شراب کے رسیا رہے ہیں اور انہیں عورتوں کی بھی ہوس رہی ہے۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ نے سقوط ڈھاکا کے ذمے دار کرداروں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنا ضروری سمجھا ہے کہ ہماری فوجی قیادت شراب اور عورت کی رسیا اور بدعنوانی میں ملوث تھی اور ان تمام چیزوں نے مل جل کر انہیں جنگ لڑنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا۔ بدقسمتی سے شراب نوشی سقوط ڈھاکا کے بعد بھی جرنیلوں میں عام رہی۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس میں دو مقامات پر ہمارے فوجیوں کی شراب نوشی کا تذکرہ ہے۔ اے ایس دولت کے بقول 2011 میں انہوں نے اسلام آباد کا دورہ کیا تو انہوں نے ایک موقع پر Black Label وہسکی کی بوتل جنرل درانی کی کار سے نکالی اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر اس کا لطف اٹھایا۔ (اسپائی کرونیکلز۔ باب اوّل) خود جنرل درانی نے بتایا کہ وہ جب حاضر سروس جنرل تھے تو وہ ایک رات ایک محفل میں پہنچے۔ محفل میں فوجی اہلکار بھی موجود تھے۔ محفل میں شراب کا دور چل رہا تھا۔ فوجی اہلکار آئی بی کے سربراہ کو دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ چناں چہ جنرل درانی کے میزبان نے انہیں یقین دلایا کہ جنرل درانی کسی سے ان کی شراب نوشی کا ذکر نہیں کریں گے۔ (باب۔ 4)
اتفاق سے عام لوگ صرف عمران خان ہی کو نہیں فواد چودھری کو بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا آدمی سمجھتے ہیں چناں چہ فواد چودھری نے جس گہری لامذہبیت، بے حیائی اور اور ڈھٹائی سے شراب سے متعلق مذہبی احکامات کا مذاق اڑایا ہے اس سے عام لوگ یہی سمجھیں گے کہ فواد چودھری جو کچھ کہہ رہے ہیں خود نہیں کہہ رہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ ان سے کہلوا رہی ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ 13 نومبر 2018ء کو راولپنڈی کورکمانڈرز کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ روزنامہ جسارت نے اس کانفرنس کو شہہ سرخی کے ساتھ رپورٹ کیا۔ کورکمانڈرز کانفرنس کے حوالے سے جسارت کی شہہ سرخی یہ تھی۔
’’ریاست کی رِٹ یقینی بنائیں گے‘‘۔
خبر میں کہا گیا تھا کہ اجلاس میں قانون کی بالادستی کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ملک میں قانون کی بالادستی سے ملک ترقی کرے گا اور ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے لیے اداروں کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ (روزنامہ جسارت۔ 14 نومبر 2018ء)
ملک میں ریاست کی رٹ کی بحالی ناگزیر ہے مگر اس حوالے سے صورتِ حال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاست کی رِٹ بحال ہورہی ہے مگر خدا کی رٹ بے حال ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اعلیٰ ترین منتخب ایوان میں شراب کے حوالے سے خدا کی رٹ کا مذاق اڑایا گیا۔ اس مذاق کے حوالے سے رہی سہی کسر اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر نے جیو کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے پوری کردی۔
یہ بات جنرل باوجوہ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ اگر ان کے پانچ چھ کورکمانڈرز ان کی حکم عدولی شروع کردیں تو فوج کا ادارہ بحران کا شکار ہوجائے گا۔ اس لیے کہ فوج کے ادارے کی اصل قوت اس کا ڈسپلن ہے۔ ڈسپلن نہیں تو فوج بھی نہیں۔
یہی بات اقبال نے قوم اور مذہب کے باہمی تعلق کے حوالے سے کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
کتنی عجیب بات ہے کہ ملک میں ریاست کی رٹ اور فوج میں آرمی چیف کی رِٹ تو اہم ہے مگر اس دنیا میں دنیا کے خالق کی رِٹ کی کوئی اہمیت۔ یہاں تک کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور جو حقیقی معنوں میں ’’مملکتِ خداداد‘‘ ہے وہاں فواد چودھری جیسے لوگ خدا کی رِٹ کا مذاق اڑارہے ہیں اور اس کو غیر موثر بنانے کے لیے زور بیان صرف کررہے ہیں۔ مگر ان کو سزا دینے والا تو کوئی کیا ہوگا ان کی زبان روکنے والا بھی کوئی نہیں۔ بھلے زمانے میں جب پاکستان کے اندر اسلام کے خلاف کوئی بات ہوجاتی تھی تو اِدھر اُدھر دو چار مظاہرے ضرور ہوجاتے تھے مگر اب آئے دن اسلام پر کھلے عام حملے ہورہے ہیں اور ان پر موثر زبانی احتجاج تک نہیں ہورہا۔
یہ کئی اعتبار سے بڑی تشویش ناک بات ہے۔ خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ افراد یا گروہوں اور قوموں کو ڈھیل دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں سے رجوع کرنے اور گناہوں پر توبہ کا وقت دیتا ہے مگر جب حجت تمام ہوجاتی ہے تو پھر وہ کسی کو نہیں چھوڑتا۔ بدقسمتی سے خواص و عوام کے بھیانک جرائم کا بوجھ آدھا پاکستان نگل چکا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ بچے کھچے پاکستان میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کا مذاق اڑائے گا اور معاشرہ اس پر خاموش رہے گا تو اس کا انجام بہت ہولناک ہوسکتا ہے۔