تاریخ کا مڑتا ہوا دھارا

188

امریکا نے افغانستان میں اپنی بچی کھچی چودہ ہزار فوج میں مزید سات ہزار کی واپسی کا اعلان کرکے دنیا کو ہی نہیں بلکہ برطانیہ جیسے قریبی اتحادیوں تک کو بھی چونکا دیا ہے۔ گویا اب افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد سات ہزار رہے گی اور یہ سات ہزار بھی گھروں اور وطن واپسی کی گھڑیاں گنتے رہیں گے۔ سات ہزار فوجیوں کی موجودگی کو علامتی ہی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ گوریلہ طرز جنگ میں اپنی برتری منوانے والی ایک تیزی سے پھیلتی ہوئی طالبان ملیشیا کا مقابلہ سات ہزار فوجیوں کے بس کی بات نہیں۔ سترہ برس کی جنگ کے اس مقام نے طالبان کو شاداں وفرحاں کر دیا ہے اور ان کے نمائندے نے اسے سترہ سالہ جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر قرار دیا ہے۔ اس مرحلے سے پہلے امریکا نے طالبان کے دیرینہ مطالبے کو مانتے ہوئے ان سے سارے حجاب اور نقاب اتار کر براہ راست مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا جس میں ایک طرف افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد اور دوسری جانب طالبان کے نمائندے تھے۔ حجابوں اور نقابوں کے بغیر یہ ملاقاتیں قطر میں ہوئیں۔ اس کے فوراً بعد امریکا نے افغانستان سے اپنی فوج کی تعداد کو کم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد اب آخری مرحلہ باقی رہتا ہے جو مکمل انخلا ہے۔
امریکا میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا معاملہ پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے درمیان وجہ نزع بن کر رہ گیا ہے اور اس کا ثبوت وزیر دفاع جیمز میٹس کا استعفا ہے۔ جیمز میٹس نے افغان پالیسی پر صدر ٹرمپ سے اختلاف کو اپنے استعفے کا اعلانیہ جواز بتایا۔ امریکا میں اداروں کی یہی رسہ کشی اور کھینچا تانی ابہام میں ڈھل کر سترہ برس میں اسے افغانستان میں کامیابی کی منزل سے دور رکھنے کا باعث بنی۔ اس کے برعکس امریکا کا مخالف فریق یعنی طالبان جنگجو زبردست نظریاتی اور عسکری یکسوئی کے ساتھ اپنی راہ پر چلتے رہے۔ طالبان نے امریکا کے سات ہزار فوجیوں کے انخلا کے اعلان کو اپنی فتح کے قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ وہ تاریخی لمحہ ہے جس کی تلاش اور انتظار میں انہوں نے کارپٹ بمبنگ کے نتیجے میں شہروں سے نکل کر پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کیا تھا اور امریکا کے حملے کے بعد وہ سال ڈیڑھ سال تک کلی طور پر مفقود الخبر ہو کر رہ گئے تھے۔ خود امریکا کے لیے بھی یہ وہ تاریخی لمحہ ہے جس کی آمد یوں تو نوشتۂ دیوار تھی مگر اپنی بڑائی، طاقت اور انا کے باعث امریکا اس کے اعلان و اعتراف سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا۔ اس کا کیجیے کہ حقیقت اپنا وجود منوا کر رہتی ہے۔ اس طرح صدر ٹرمپ کے اس اعلان کو سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف کے اس حیران کن اور معنی خیز اعلان کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے افغانستان کو رستا ہوا زخم قر اردیا تھا اور باخبر تجزیہ نگاروں نے اسے افغان مزاحمت کا مقابلہ کرتے ہوئے وقت کی سپر طاقت کی تھکاوٹ اور اعصاب شکنی کا پہلا اعتراف قرار دیا تھا۔ بعد میں وقت نے اس بات کو درست ثابت کیا اور سوویت یونین نے افغانستان سے باقاعدہ انخلا کے واضح اشارے دینا شروع کر دیے۔
امریکا سترہ برس پہلے طاقت کے زور پر افغانستان کو فتح کرنے آیا تھا مگر ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ امریکا کو افغانستان سے ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہی تھا اس بات کا یقین افغانوں کے ایک مراعات یافتہ طبقے یا امریکا کے عالمی خوشہ چینوں کے سوا ہر کسی کو تھا۔ افغانستان سے رخصتی کی یہ ادا شکست ہوگی فتح یا اس کے درمیان کا کوئی راستہ؟ اس کا فیصلہ ہونا باقی تھا۔ پہلے تو امریکا ایک
مدت تک واپسی کا نام بھی نہیں لے رہا تھا کہ اس سے طالبان کے حوصلے بلند ہوں گے۔ اوباما کے دور میں امریکا کے تھنک ٹینکس اور فوجی حکمت کار یہ جان کر کہ افغانستان میں غیر معینہ مدت تک قیام گھاٹے کے سودے کے سوا کچھ اور نہیں، انخلا کی باتیں کرنے لگے۔ یوں وہ ایک قطعی ناگوار موضوع پر بات سننے اور بات کرنے کے روادار ہوگئے۔ حقیقت بھی یہی تھی طالبان اور امریکا کی طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ امریکا کی طاقت ماضی کے سوویت یونین سے کہیں زیادہ تھی۔ ماضی کے امریکا کی طرح اس بار افغانوں کا کھلا مددگار کوئی بھی نہیں تھا۔ پاکستان اس الزام کی زد میں تھا مگر وہ بھی اپنا دامن اس الزام کے چھینٹوں سے بچانے کی کوشش میں رہتا تھا۔ چین، روس اور ایران سمیت کوئی ملک اس مزاحمت کی حمایت کا دم نہیں بھرتا تھا۔ امریکا کی ڈیڑھ لاکھ فوج، ناٹو اور ایساف کی فوج فضائی برتری کی اضافی صلاحیت کے ساتھ آسمان سے آگ برسارہی تھی۔ اس جنگ میں طالبان نے اپنی ساری طاقت امریکا کی حماقتوں سے کشید کی۔ امریکا کی طاقت ہی اس کی کمزوری بنتی چلی گئی۔ فریقین کے درمیان چوں کہ طاقت کا عدم توازن تھا اس لیے یک طرفہ برتری کے نشے میں طاقت کا حماقتوں کی دلدل میں دھنسنا یقینی تھا۔ امریکا نے افغانستان میں ایسی طاقتوں کو اپنا اتحادی بنایا جو ایک طویل جنگ لڑ کر تھک چکے تھے اور اس طوالت نے جنگ کو ان کے لیے کاروبار بنا دیا تھا۔ یہ یقین اور اعتماد سے خالی لوگ تھے جو جنگ کو ایک نوکری اور نفع بخش کام کے طور پر لڑنا چاہتے تھے۔ یہ افغان معاشرے میں ناپسندیدہ لوگ تھے اور انہوں نے دولت کے انبار بنا کر عام آدمی کی نظر میں اپنی ساکھ کھو دی تھی۔ اس کے برعکس طالبان ایک واضح ہدف کے ساتھ لڑ
رہے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا ملک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی غلامی کا شکار ہو چکا ہے اور اس غلامی کے خلاف جہاد ان پر فرض ہو چکا ہے۔ اس جنگ میں موت شہادت اور ہر صعوبت عبادت ہے۔ اس فکری برتری نے طالبان کی گنجائش بڑھانا اورامریکا کے حامی افغانوں کی گنجائش کم کرنا شروع کی۔ امریکا اور ناٹو افواج نے فضاؤں سے طالبان کے حامی اور مخالف کی تخصیص کیے بغیر گولہ وبارود کی برسات کرکے غیر ملکی افواج اور ان کے مقامی معاونین کے خلاف نفرت کے گراف کو بلند سے بلند تر کر دیا۔ دس گیارہ سال کی جنگ کے بعد دنیا پر یہ راز کھلنے لگا کہ پاکستان کے علاوہ بھی کچھ بڑی علاقائی طاقتیں طالبان کے ساتھ روابط قائم کیے ہوئے ہیں۔ جن میں روس اور ایران جیسے ممالک بھی شامل تھے۔
ایبٹ آباد آپریشن کو پلاٹ کرکے امریکا نے حقیقت میں افغانستان میں اپنی موجودگی کا جواز کھو دیا تھا اور شاید امریکا نے ایبٹ آباد آپریشن اور اسامہ بن لادن کی موت کے ذریعے اس ساری جنگ کے لیے ایک فاتحانہ موڑ تلاشنا اور تراشنا شروع کیا تھا۔ اب امریکا نے افغانستان سے اپنی آدھی فوج کے انخلا کا اعلان تو کردیا مگر یہ سوال اپنی جگہ موجودہے کہ اس بار امریکا بھی سوویت یونین کی طرح کابل میں ڈولتی ہوئی حکومت چھوڑ کر اپنی باعزت واپسی میں دلچسپی رکھتا ہے یا طاقت کے خلا کو مناسب انداز سے پر کرنے کے لیے طالبان اور ان کے مخالفین دونوں کو ایک دھارے میں لا کر خانہ جنگی کے اسباب وامکانات کوکم ازکم سطح پر رکھتا ہے۔ افغان حکومت اس خود اعتمادی کا اظہار کرچکی ہے کہ وہ طالبان کے ریلے میں نہیں بہے گی مگر اس اعتماد کے پیچھے افغان فوج اور پولیس کی مہارت وصلاحیت نہیں بلکہ چین و پاکستان جیسے ملکوں کی کوئی ضمانت ہو سکتی ہے کیوں کہ افغان خانہ جنگی کا پہلا شکار اس کے لوگ ہوتے ہیں تو دوسرا شکار ہمسایوں کے سوا کوئی اور نہیں ہوتا۔