انصاف کہاں ملے گا ؟ 

220

قومی احتساب بیورو (نیب ) کی کراچی میں کھلی کچہری میں عوام نے شکایتوں کے انبار لگادیے ۔ کھلی کچہری کا وقت دو گھنٹے مقرر کیا گیا تھا تاہم شکایت کنندہ اتنے زیادہ تھے کہ یہ وقت صرف درخواستوں کی وصولی کے لیے بھی کم پڑ گیا اور اس میں اضافہ کرنا پڑا۔ خود نیب کی اپنی حالت قابل رشک نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ نیب سے رجوع کرنے پر عوام کو ریلیف مل جائے گا۔ تاہم اس سے عوام کی بے بسی کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔ اس وقت عوام کے پاس کوئی ایسا فورم موجود نہیں ہے جہاں پر وہ کسی بھی ادارے کے خلاف شکایت درج کرواسکیں اور ان کی فوری داد رسی ہوسکے ۔ لے دے کر عدلیہ کا دروازہ بچتا ہے مگر جس کا بھی واسطہ عدلیہ سے پڑا ہے ، اسے حالات کا بخوبی اندازہ ہے ۔ عدلیہ سے انصاف صرف اسے ملتا ہے جو معروف وکلاء کو بھاری فیسیں دے سکے ۔ یہ محاورہ نہ صرف مشہور ہے بلکہ پاکستان میں حالات کو دیکھتے ہوئے کسی حد تک درست بھی لگتا ہے کہ مقدمہ جیتنے کے لیے وکیلوں کی فرم کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے ایک جج کی خدمات حاصل کرلی جائیں ۔ یہ عوام کی بے بسی ہی ہے کہ انہیں جہاں سے انصاف ملنے کی رمق بھی نظر آئے وہ وہاں پر پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ منظر ہر سنیچر اور اتوار کو چیف جسٹس آف پاکستان کی کراچی رجسٹری آمد کے موقع پر بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ نیب کے پاس موجود شکایات کی تفصیل دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اندھیر نگری میں کیا کچھ ہورہا ہے ۔ ان سائلین کی شکایات کی اکثریت کا تعلق کاادارہ ترقیات کراچی ، بلدیہ کراچی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حوالے سے تھا ۔ یہ سائلین قبضہ مافیا کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ درخواستیں لائے تھے ۔ ایک طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ناجائز قابضین سے نہ صرف قبضہ فوری طور پر ختم کروایا جائے بلکہ انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا بھی کیا جائے ۔دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ ادارہ ترقیات کراچی ، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ان ناجائز قابضین کے خلاف کارروائی کرنا تو درکنار، اُن کی پشتیبان بنی ہوئی ہے ۔ ہم پہلے بھی اس طرف توجہ دلاتے رہے ہیں کہ صرف جرم کے خلاف کارروائی کافی نہیں ہے بلکہ جرم میں معاون سرکاری افسران کے خلاف بھی کارروائی ضروری ہے ۔ اگر ایک مرتبہ یہ سلسلہ چل پڑا کہ معاون سرکاری افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی تو پھر جرائم کی بیخ کنی آسان ہوجائے گی ۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے یعنی ایک طرف تجاوزات کے خلاف کارروائی زور شور سے جاری ہے اور دوسری جانب ناجائز قابضین دھڑلے سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ پریشان ہیں تو صرف قانون پسند شہری ۔ اس وقت قانون پر عمل کرنے والے شہریوں کو دیوار سے لگادیا گیا ہے ۔ دیوار سے لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب ان شہریوں کے پاس انصاف حاصل کرنے کے لیے کوئی اور دروازہ نہیں بچا ہے اور جب کوئی اور راستہ نہ ہو تو پھر لاقانونیت کا لاوا پھوٹ پڑتا ہے جس کے بعد ہر چیزخاکستر ہوجاتی ہے ۔