نیا سال محاذ آرائی میں گزرے گا؟

157

سال نو وفاق اور سندھ حکومت میں محاذ آرائی کا سال لگتا ہے جس کی بنیاد سال گزشتہ کے اختتام پر رکھ دی گئی ہے۔ سیاسی محاذ آرائی تو پہلے بھی دیکھنے میں آتی رہی ہے لیکن اس بار وفاق میں پاکستان تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ پہلے کبھی دیکھنے ، سننے میں نہیں آئی ۔ ایسا لگتا ہے جیسے دو پہلوان اکھاڑے میں کھڑے ایک دوسرے کو للکار رہے ہوں اور ہر ایک کی کوشش ہے کہ د اؤ پیچ کے بجائے زبان کے بل پر دوسرے کو پچھاڑ دیا جائے ۔ پرانے زمانے کی جنگوں میں یہ ہوتا تھا کہ معرکہ گرم ہونے سے پہلے دونوں طرف کے جنگجو نکلتے تھے اور ایک دوسرے کو برے القاب سے مخاطب کرتے اور باپ دادا کے نام لے کر نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ۔ خون گرمانے کے بعد تلواریں سونت کر پل پڑتے تھے ۔ وفاق اور سندھ کی صورتحال میں ابھی ایک دوسرے پر بل پڑنے کی نوبت نہیں آئی اور مبارزت طلبی کا مرحلہ در پیش ہے ۔ ایام جاہلیہ کی طرح انتہائی نا شائستہ زبان دونوں ، بلکہ تینوں طرف سے استعمال ہو رہی ہے۔ بلا شبہ اس طرز گفتگو کے بانی تحریک انصاف کے کچھ ’’ کاؤ بوائز‘‘ ہیں جو چابک بدست ہیں تاہم چابک کا کام زبان سے لے رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے حواریوں نے اپنے مخالفین کو چور ، ڈاکو ، لٹیرا کہنے کا وتیرہ اپنا لیا ہے چنانچہ جواب میں انہیں بھی ایسا ہی کچھ سننے کو مل رہا ہے ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے گزشتہ منگل کو نئے سال کا آغاز کرتے ہوئے وفاق کو چیلنج دیا ہے کہ سندھ حکومت گرا کر دکھائے ، ہم وفاقی حکومت کو گھر بھیج دیں گے ، پی ٹی آئی والے پرائی طاقت پر اندھے ہو گئے ، کتے کی دم سیدھی نہیں ہو گی ۔ اس جملے کے پہلے حصے کا تعلق تو معروف اصطلاح اسٹیبلشمنٹ سے ہے ۔ یہ اصطلاح فوج کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور کئی سیاسی جماعتیں مصر ہیں کہ پی ٹی آئی خودآئی نہیں لائی گئی ہے ۔ چنانچہ عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہا جار ہا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو لانے والے ہی حکومت کو سنبھالیں گے اور اس کا گرانا آسان نہ ہو گا ۔ تاہم وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ’’ کتے کی دم‘‘ کا محاورہ استعمال کیا ہے جو شاہ صاحب کو زیب نہیں دیتا ۔ اس محاورے کا اطلاق دونوں طرف ہو سکتا ہے کیونکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بہت کچھ کہہ رہی ہے ۔ کہنے کو تو کہا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں اور ابھی اس میں لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنا ہے ۔ مگر خود پیپلز پارٹی کے لوگ حقائق سے واقف ہیں کہ رپورٹ میں بہت کچھ صحیح ہے ۔ پورا صوبہ سندھ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ لوٹ مار کی انتہا ہو گئی ہے ۔ آصف علی زرداری کے دوست انور مجید کے اومنی گروپ کو جس طرح نوازا گیا ہے وہ پہلے بھی کوئی راز نہیں تھا ۔ اس کرپشن کا معمولی سا حصہ ہی اگر تھرپارکر میں لگا دیا جاتا تو وہاں کی حالت بدل جاتی ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی عدالت یہ استفسار کر چکی ہے کہ نوابشاہ کو جو کئی ارب روپے دیے گئے وہ کہاں گئے ۔ پیپلز پارٹی کے پاس صرف ایک جواب ہے کہ آصف علی زرداری12,11 سال جیل میں رہے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ۔ یہ ممکن بھی نہیں تھا ۔ بہت کچھ غائب کر دیا گیا ۔ جب آصف علی زرداری 5 سال تک اس ملک کے صدر رہے اور وہ کوئی روایتی’’درشنی‘‘ صدر نہیں تھے بلکہ عملاً سربراہ حکومت تھے اور وزراء اعظم کا عزم و نصب ان کے اختیار میں تھا ایسے میں مدعی نہ گواہ نہ ثبوت ، حساب صاف ہوا ۔ لیکن وہ اپنے بارے میں عوامی تاثر کو درست نہیں کر سکے اور تاثر حقیقت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ورنہ تو یہ سوال ہی کافی تھا کہ ایک متوسط طبقے کے شخص حاکم علی زرداری کی اولاد ارب پتی اور کھرب پتی کیسے بن گئی جب کہ کوئی کاروبار بھی نہیں تھا۔ بہر حال اس وقت تو حکومتیں گرانے اور بٹھانے کی باتیں ہور ہی ہیں ۔پیپلز پارٹی کا یہ کہناصحیح ہے کہ سندھ میں اسے جو اکثریت حاصل ہے اسے ختم کرنا آسان نہیں جب کہ عمرانی حکومت صرف 6 ارکان کی اکثریت پر کھڑی ہے ۔ اسی لیے مراد علی شاہ اور پارٹی کے ترجمان مولابخش چانڈیو نے دھمکی دی ہے کہ وفاقی حکومت باز نہ آئی تو گمنام ہو جائے گی ۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کئی بار یہ تماشے دیکھ چکی ہے کہ اکثریت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور راتوں رات پانسہ پلٹ جاتا ہے ۔ لیکن ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور حکومتیں گرانے کے اس کھیل میں نقصان ملک اور جمہوریت کا ہے۔ فی الوقت وفاقی حکومت کچھ پیچھے تو ہٹی ہے اور حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے ’’صف شکن‘‘ فواد چودھری کو سندھ فتح کرنے کی مہم سے باز رکھا ہے تاہم گورنر سندھ عمران اسماعیل اب بھی سندھ میں من پسند تبدیلی لانے کے لیے پر امید ہیں اور فرمایا ہے کہ سندھ میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں ، عمران خان نے نئی ہدایات جاری کر دی ہیں ۔ منگل کو وزیر اعظم سے ملاقات میں عمران اسماعیل نے یقین دلایا ہے کہ فصل پک چکی ہے ۔ بس کاٹنے کی دیر ہے ۔ گورنر کے مطابق پیپلز پارٹی کے متعدد ارکان اسمبلی اپنی پارٹی کی کرپشن سے نالاں ہیں ۔ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ہمیں یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی اور عمران خان کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ نئے محاذ کھولنے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں۔