سانحہ ماڈل ٹاؤن، ایک اور جے آئی ٹی 

126

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے ایک نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم( جے آئی ٹی) بنادی گئی ۔ یعنی 4سال کے عرصے میں بس اتنی پیش رفت ہوئی ہے ۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیش آنے والے اس خونیں سانحہ کی رپورٹ تھانے میں 28 اگست 2014ء کو درج کی گئی تھی اور اس پر 17 نومبر 2014ء کو جے آئی ٹی بنا دی گئی تھی تب سے اب تک یہ کھیل جاری ہے اور کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا ہے ۔ اب نئی جے آئی ٹی بن گئی ۔ اس میں پنجاب کا کوئی افسر شامل نہیں کیا گیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ سانحہ میں پنجاب کی پولیس اور انتظامیہ پر الزامات عاید کیے گئے تھے ۔ یہ محض الزامات نہیں تھے بلکہ پورا منظر ہر ٹی وی چینل پر براہ راست دکھایا گیا ور اب تک بار بار دکھایا جار ہا ہے ۔ تمام پولیس افسران کے چہرے واضح ہیں ۔ ان ہی کی قیادت میں گلو بٹ بھی گاڑیوں کے شیشے توڑتا پھر رہا تھا۔ ستم یہ ہوا کہ جو پولیس افسران ملوث تھے ان کو ترقی دے کر ان کا تبادلہ کر دیا گیا ۔ اس خونریزی میں 14 افراد جاں بحق ہوئے ۔ الزامات کی زد میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور وزیر اعلیٰ بھی آئے چنانچہ معاملات ٹلتے رہے ۔ یہ ہنگامہ منہاج القرآن کے دفتر کے باہرقائم کی گئی تجاوزات ہٹانے پر برپا ہوا تھا جو بغیر کسی خون خرابے کے حل ہو سکتا تھا لیکن پنجاب پولیس نے اپنی روایات کے مطابق دراز دستی سے کام لیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ٹی وی پر مناظر دیکھنے کے باوجود فوری طور پر مداخلت کرنے سے گریز کیا ۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے بھی اسے سیاسی رنگ دے کر مقتولوں کو انصاف کے حصول سے دور رکھا ۔ وہ عام طور پر کچھ دن کے لیے پاکستان آتے اور چند بیانات دے کر چلے جاتے ہیں ۔ عمران خان کے ساتھ دھرنے میں شرکت کے دوران انہوں نے ’’ مبارک ہو‘‘ کے نعرے بھی لگائے اور کینیڈا چلے گئے ۔ نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے احکامات پر بھی وہ مبارک سلامت کا غلغلہ بلند کرتے رہے ہیں ۔ بہر حال اب دیکھنا ہے کہ نئی جے آئی ٹی کسی نتیجے پرپہنچنے کے لیے کتنا وقت لیتی ہے ۔ نئی جے آئی ٹی کی سربراہی آئی جی موٹر ویز اے ڈی خواجہ کو سونپی گئی ہے جو سندھ میں انسپکٹر جنرل پولیس رہ چکے ہیں اور سندھ حکومت ان سے برابر محاذ آرائی کرتی رہی ہے ۔ کمیٹی میں آئی ایس آئی ، ملٹری انٹیلی جنس ، انٹیلی بیورو کے افسران اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر گلگت بلتستان شامل ہیں ۔ اس فہرست سے ظاہر ہے کہ ایسے افسران کو لیا گیا ہے جو سابق حکومت پنجاب کے اثر و رسوخ سے باہر ہوں ۔جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد معاملات عدالت ہی میں آئیں گے اور ممکن ہے کہ کوئی فیصلہ ہونے میں مزید تاخیر ہو ۔ اگر شہباز شریف کی صوبائی حکومت کوئی ٹھوس قدم اٹھاتی تو اتنا عرصہ نہ لگتا لیکن سابق پنجاب حکومت کے دامن پر یہ ایک اور داغ ہے ۔ طاہر القادری اب بھی اگر مقدمے کو سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ فوجداری مقدمات کے ذریعے لڑیں تو انصاف کا حصول جلدی ہو سکتا ہے ۔