کراچی کے بجٹ کی لوٹ مار

167

متحدہ مجلس عمل کے لیاری سے رکن سندھ اسمبلی عبدالرشید نے لیاری میں ترقیاتی کاموں کے نام پر اربوں روپے بٹورنے والوں کے خلاف احتساب کارواں نکالنے کا اعلان کیا ہے ۔ عبدالرشید کی جانب سے کیے گئے انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کے ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ ادوار میں کس بے رحمانہ انداز میں لوٹ مار کی گئی ۔ جس زمانے میں مصطفے کمال متحدہ قومی موومنٹ کے سٹی میئر تھے ، اس زمانے میں 40 ارب روپے صرف سیوریج لائنوں کی تبدیلی کی آڑ میں خورد برد کرلیے گئے ۔ اس کے علاوہ فٹ پاتھوں اور پیڈسٹیرین برج کی تعمیر کے نام پر اندھا دھند لوٹ مار کی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ادوار میں کراچی کے لیے ایک سو ارب روپے سے زیادہ کی رقم ترقیاتی بجٹ کے لیے فراہم کیے جانے کے باوجود کراچی ابھی تک کچرے کا ڈھیر اور گٹر کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ مصطفے کمال کے دور میں جو سڑکیں تعمیر کی گئی تھیں ان کے معیار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اندرونی سڑکیں تو کب کی ٹوٹ پھوٹ گئیں ، اہم شاہراہیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ مصطفے کمال سے قبل جماعت اسلامی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں تعمیر کی گئی شہید ملت روڈ اور راشد منہاس روڈ وغیرہ ابھی تک بہترین حالت میں ہیں ۔ اب گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کراچی پیکیج کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے 50 ارب روپے کی منظوری دے دی ہے ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ فنڈز ملنے کے بعد کراچی میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہوگی جن میں گرین لائن بس کا منصوبہ بھی شامل ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کراچی کو ایک میگا سٹی جیسی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کثیر فنڈز کی شدید ضرورت ہے ۔ تاہم اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ان فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ حال ہی میں یونیورسٹی روڈ کی تعمیر سندھ حکومت نے تقریبا ڈیڑھ ارب روپے مالیت سے مکمل کی ہے مگر اس میں بھی بدعنوانی نے وہی کام دکھایا ہے جو بلدیہ کے تحت بننے والے منصوبوں میں نظر آتا ہے ۔یونیورسٹی روڈ کی تعمیر میں بدعنوانی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روڈ کے سائیڈ میں برساتی پانی کی نکاسی کے لیے مین ہول تو بنائے گئے ہیں مگر ان مین ہولوں کے درمیان کوئی نالہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی پائپ ڈالے گئے ہیں ۔ اس طرح برساتی پانی کی نکاسی کے لیے مختص بجٹ کھا لیا گیا ہے ۔ سروس روڈ انتہائی گھٹیا کوالٹی کی تعمیر کی گئی ہیں اور تعمیر کو ایک سال مکمل ہونے سے قبل ہی ٹوٹنا شروع ہوگئی ہیں ۔ یونیورسٹی روڈ کی تعمیر میں اس امر کا ایک جگہ بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے کہ پانی سڑک پر جگہ جگہ نہ کھڑا ہو ۔ ایک بارش میں ہی اس سڑک کے سارے گن کھل کر سامنے آجائیں گے ۔ جب سندھ حکومت اور بلدیہ دونوں ہی کراچی کے ترقیاتی بجٹ کو گدھ کی طرح لوٹنے پرلگ جائیں تو پھر نئے بجٹ میں بدعنوانی کے عنصر کی روک تھام کے لیے خصوصی توجہ اور اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی دو رائیں نہیں کہ سندھ پر 10 سال سے حکمران پیپلز پارٹی نے کھربوں روپے کے فنڈز حاصل کیے لیکن نہ تو اسکولوں، اسپتالوں پر خرچ ہوئے نہ ہی سڑکوں پر استعمال ہوئے۔ میگا سٹی کراچی کا یہ حال ہے تو سندھ کے دیگر شہروں کی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی لیاری کو اپنا گڑھ بھی کہتی ہے۔