ماضی پرستی، مسلمان اور دوسری اقوام

539

غالب سے ایک بار انگریز نے پوچھا تھا۔ ’’well، تم مسلمان ہے‘‘؟ غالب نے جواب دیا کہ آدھا۔ انگریز نے آدھے مسلمان ہونے کا مطلب پوچھا تو غالب نے کہا۔ شراب پیتا ہوں، خنزیر نہیں کھاتا۔ غالب نے آدھا مسلمان کی جو تعریف بیان کی ہے اسے قبول کرلیا جائے تو آدھی دنیا مسلمان ہوچکی ہے۔
اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل دانش ور مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ماضی پرست یا Nostalgic ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسلمان اپنے ماضی کی یادوں اور باتوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ یہ بات اتنے تواتر سے کہی گئی ہے کہ ماضی پرستی مسلمانوں کی پہچان بن گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی پرستی ہی اگر مسلمان ہونے کی دلیل ہے تو برطانیہ کے معروف جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ کے تازہ ترین شمارے کے اداریے کے مطابق دنیا کا بڑا حصہ مسلمان ہوچکا ہے۔ اس کی تفصیل خود اکنامسٹ کے اداریہ نویس نے مزے لے لے کر بیان کی ہے۔ دی اکنامسٹ کے بقول امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ ’’ایک بار پھر‘‘ امریکا کو عظیم بنائیں گے۔ یعنی وہ امریکا کو ویسا بنادیں گے جیسا کہ امریکا ’’ماضی‘‘ میں تھا۔ چین کے صدر شی جن پنگ ’’چینی خواب‘‘ کے ذریعے چین کو اس کے ’’عہد زرّیں‘‘ میں لے جانا چاہتے ہیں۔ مودی بھارت کے عظیم ماضی کا ذکر کرکے بھارت کے ہندوؤں میں ماضی پرستی پیدا کررہے ہیں۔ میکسیکو کے صدر آندرے مینول لوپز عالمی سرمایہ داری کی پیش قدمی روک کر اپنے ملک کی اقتصادی خود مختاری بحال کرنا چاہتے ہیں۔ پولینڈ کے طاقت ور سیاست دان جارو سلاو کے زنسکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کو کمیونزم کے اثرات سے پاک کرکے پولینڈ میں ماضی کی اقدار کا احیا چاہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماضی پرستی نے آدھی دنیا میں ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس حال میں اگر کوئی دنیا سے پوچھے گا کہ well، تم مسلمان ہو؟ تو دنیا کہے گی آدھی مسلمان۔ اللہ اور رسول کو نہیں مانتی مگر ماضی کو مانتی ہوں۔
دی اکنامسٹ، ماضی پرستی یا Nostalgia کا ذکر کرکے نہیں رہ گیا بلکہ اس نے اس کی ایک بڑی اور کئی چھوٹی چھوٹی وجوہ بھی بیان کی ہیں۔ مغرب کی ایک دانش ور صوفیا گیسٹن کے بقول مغربی اقوام کی ماضی پرستی ہر طرف نظر آنے والے زوال کے احساس سے جنم لیتی ہے۔ اس سلسلے میں مغربی ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ برطانیہ کے دو تہائی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ماضی میں زیادہ خوش باش تھے۔ فرانس کے دو تہائی لوگ اپنے حال سے مطمئن نہیں۔ اقوام متحدہ نے 2018ء میں خوشی سے متعلق جو رپورٹ جاری کی اس میں کہا گیا تھا کہ امریکیوں میں زندگی سے بے اطمینانی بڑھتی جارہی ہے۔ دنیا کے امیر اور ترقی پزیر ممالک میں اکثریت کا خیال ہے کہ صنعت و تجارت میں روبوٹس اور خودکاریت یا Automation کے بڑھتے ہوئے رجحان سے عدم مساوات اور بیروزگاری بڑھے گی۔ 2017ء میں 28 ممالک میں ہونے والے سروے سے معلوم ہوا کہ ان ممالک کی آدھی آبادی سمجھتی ہے کہ ان کے طرزِ زندگی میں یا تو انجماد آجائے گا یا ان کا طرزِ زندگی ماضی کے مقابلے میں ابتر ہوجائے گا۔ جاپان کے صرف 15 فی صد لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے بچے اپنے والدین سے بہتر زندگی بسر کریں گے۔ البتہ دی اکنامسٹ کے مطابق اُبھرتی ہوئی منڈیوں یا Emerging markets میں ماضی پرستی کے اسباب امیر ممالک کے اسباب سے قدرے مختلف ہیں۔ نئی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ماضی کی رفعتوں کا ذکر دراصل مستقبل کی فتوحات سے قبل ازوقت لطف اندوز ہونے کا عمل ہے۔ مثلاً چین ترقی یا نمو کے 40 برس گزار کر محسوس کررہا ہے کہ وہ مستقبل میں زیادہ رفعتوں سے ہمکنار ہونے والا ہے۔
دی اکنامسٹ کے بقول دنیا بدل رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت سمیت نئی ٹیکنالوجی کی کئی صورتیں پوری صنعتی زندگی کو درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ محسوس ہورہا ہے کہ ان سے فرد اور ریاست کا تعلق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رہ جائے گا۔ دنیا میں ایک بہت ہی بڑا تغیر یہ رونما ہورہا ہے کہ دو صدیوں کے بعد طاقت کا مرکز مغرب سے چین منتقل ہورہا ہے۔ دنیا میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ موسمی تغیرات نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ علاوہ ازیں ہماری دنیا نسلی اور ثقافتی اعتبار سے پہلے سے زیادہ ملی جلی یا Mixed ہوگئی ہے۔ ایسے ماحول میں لوگ ماضی پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس لیے کہ وہ اپنے انفرادی و اجتماعی وجود پر اپنے اعتبار اور اپنی نظر میں اپنی تکریم کو بڑھا سکیں۔ امیر ممالک میں لوگ اس لیے بھی ماضی پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے وہ اپنے اس کنٹرول کو واپس لینا چاہتے ہیں جسے انہوں نے کھودیا ہے۔ ماضی پرستی کسی اور کے تصور ترقی کے خلاف بغاوت کی بھی ایک صورت ہے۔ (دی اکنامسٹ 22 دسمبر تا 4 جنوری 2019ء)
مغرب کے زوال کا قصہ بہت پرانا ہے۔ نٹشے جدید مغرب کے اہم ترین فلسفیوں میں سے ایک ہے اور نٹشے نے 19 ویں صدی کے اواخر میں صاف کہا تھا کہ یورپی تہذیب زوال پزیر ہے۔ چناں چہ اس کے بقول یورپی تہذیب ماضی میں دیوقامت لوگ پیدا کررہی تھی اور عہد حاضر میں اس نے بالشتیے پیدا کرنے شروع کیے ہوئے ہیں۔ اسپنگلر نے اپنی معرکہ آرا تصنیف زوال مغرب یا Decline of the west میں مغرب کے زوال کا ماتم کیا ہے۔ زوال مغرب 20 ویں صدی کے اوائل میں شائع ہوئی تھی۔ آرنلڈ ٹوائن بی کا زمانہ 20 ویں صدی کے وسط کا زمانہ ہے اور ٹوائن بی نے جاپان کے دانش ور اکیدا کے ساتھ اپنے مکالمے میں صاف کہا ہے کہ مغربی تہذیب مر رہی ہے اور اس کو بچانے کی صرف دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جدید مغربی تہذیب اپنے اندر کسی نہ کسی قسم کی روحانیت کو داخل کرلے اور دوسرے یہ کہ جدید مغربی تہذیب ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑائے۔ امریکا کے ممتاز ماہر عمرانیات ایلون ٹوفلر نے اپنی کتب Future Shock میں اعتراف کیا ہے کہ جدید مغربی تہذیب ایک ایسی ٹرین کی طرح ہے جو ڈرائیور کے ہاتھ سے نکل کر بے قابو ہوچکی ہے اور جس کا حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ تاہم ٹوفلر کا خیال ہے کہ مغربی تہذیب کو حادثے سے بچانے کے لیے مغرب کو مذہب کے مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ مغربی تہذیب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی ہی اسے بحران سے نکالیں گی۔ اب 21 ویں صدی میں مغرب کے اہم فکری اور صحافتی جریدے دی اکنامسٹ نے تسلیم کیا ہے کہ مغرب کا زوال ایسا ہے کہ ہر طرف نظر آرہا ہے اور اس زوال کی وجہ سے مغربی معاشروں میں ماضی پرستی پیدا ہورہی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان بھی ماضی پرست ہیں اور دوسری اقوام بھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی ماضی پرستی دوسری اقوام کی ماضی پرستی سے مختلف ہے؟۔
اس سوال کا تفصیلی اور ہمہ جہت جواب آگے آرہا ہے۔ فی الحال آپ اقبال کے دو شعر ملاحظہ فرمالیجیے۔ اقبال نے کہا ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے اور شاہیں کا جہاں اور
ایک اور جگہ اقبال نے فرمایا ہے۔
الفاظ و معافی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
ان شعروں کا زیر بحث موضوع سے گہرا تعلق ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ دو خیالات یا دو تجربات ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان پر ایک دوسرے کا جڑواں یا Twin ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ مگر جاننے والے جان لیتے ہیں کہ ان میں کیا فرق ہے۔ باطل انسان کو دھوکا دیتا ہے اور باطل کا سب سے بڑا دھوکا وہ ہوتا ہے جب وہ حق کا چہرہ بنا کر اور حق کا لباس زیب تن کرکے ہمارے سامنے آتا ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ شاہین اور کرگس ایک ہی فضا میں اڑتے ہیں مگر وہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بلند پروازی شاہین کی فطرت ہے اور کرگس بلند پرواز کے ذریعے مردار تلاش کررہا ہوتا ہے۔ ملّا اور مجاہدین کی اذان صرف الفاظ ہی میں نہیں معانی میں بھی یکساں ہے مگر پھر بھی ان کی اذان میں فرق ہے۔ ملّا کے لیے اذان ایک کام ہے اور Job ہے اور مجاہد کے لیے اذان کے الفاظ اور ان کے معنی ایک وجودی تجربہ۔
مسلمانوں اور دوسری اقوام کی ماضی پرستی کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلمان کی ماضی پرستی اپنی اصل میں روحانی اور وجودی تجربہ یا Existential Experience ہے۔ اس کے برعکس دوسری اقوام کے لیے ماضی کی پرستش ایک سیاسی، سماجی، معاشی اور مادّی تصور ہے۔ دی اکنامسٹ نے اپنے اداریے میں اس کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ امریکا، یورپ، چین اور بھارت کی ماضی پرستی اپنی اصل میں سیاسی، معاشی اور مادی ہے۔ یہ مسئلہ اتنا گمبھیر اور گہرا ہے کہ اقبال تک کے یہاں اس کی جھلکیاں نظر آجاتی ہیں۔ آپ نے اقبال کی معرکہ آرا نظم شکوہ تو پڑھی ہوگی۔ ذرا اس کا یہ بند پڑھیے۔
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سر بکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے
قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی
آپ نے دیکھا ان شعروں میں ایک طنطنہ ہے۔ دنیا کے مال دولت سے ایک بے نیازی ہے۔ مگر ان شعروں میں اُمت کی اجتماعی روح اور اجتماعی شخصیت کلام کررہی ہے۔ ذرا شکوہ کے کچھ اور اشعار ملاحظہ کیجیے۔ اقبال فرماتے ہیں۔
یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
……
کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
طعن اغیار ہے، رسوائی ہے ناداری ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے
……
بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
یہ اشعار بھی شکوہ ہی سے لیے گئے ہیں اور ان اشعار کے خالق بھی اقبال ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے پیش کیے گئے اشعار میں اُمت کی اجتماعی شخصیت بدل رہی تھی اور مذکورہ بالا اشعار میں اقبال کی انفرادی شخصیت اور انفرادی آواز کلام کررہی ہے۔
مسلمانوں کی ماضی پرستی اس لیے بھی دیگر اقوام کی ماضی پرستی سے مختلف ہے کہ مسلمانوں کا ماضی زندہ ہے اور اس ماضی کی بازیافت ممکن ہے اس کے برعکس دوسری اقوام کا ماضی مرچکا اور اس کی بازیافت ممکن ہی نہیں۔ مسلمانوں کے ماضی کے زندہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں کے عقاید زندہ ہیں۔ مسلمانوں کی عبادات کا نظام زندہ ہے۔ مسلمانوں کی اخلاقیات زندہ ہے۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ زندہ ہے اور اس سے مسلمانوں کا تعلق زندہ ہے۔
بلاشبہ مسلمانوں کا عمل ناقص ہے مگر ایمان زندہ ہے تو عمل کا معیار کسی بھی وقت بہتر ہوسکتا ہے۔ مگر ہندو ازم، عیسائیت اور یہودیت کے عقاید مرچکے۔ ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کی عظیم اکثریت سیکولر ہوچکی۔ چین کی روایتی مذہبی تہذیب کو کمیونسٹ انقلاب نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا۔ چناں چہ چین کی ماضی پرستی کھوکھلی اور محض ایک طرح کی تصور پرستی یا رومانویت ہے۔ رہا جدید مغرب تو وہ صرف اپنے ماضی کے سیاسی اور عسکری غلبے کو یاد کررہا ہے۔
مسلمانوں کی ماضی سے محبت کا ان کے ’’تصورِ تاریخ‘‘ سے گہرا تعلق ہے۔ مسلمانوں کا تصور تاریخ دائروں یا Cyclic ہے۔ یعنی مسلمانوں کی تاریخ ایک دائرے میں سفر کررہی ہے اور دائرے کے سفر میں ماضی کی بازیافت ممکن ہے۔ اس لیے کہ دائرے میں دائرے کا آغاز کرنے والا نقطہ خود کو دہراتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت رسول اکرمؐ کی ایک حدیث ہے۔ اس حدیث میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو پسند ہوگا۔ اس کے بعد کاٹِ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔
جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس حدیث شریف میں تاریخ ایک دائرے میں سفر کررہی ہے اور اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس کے برعکس جدید مغرب اور اس کے زیر اثر تمام اقوام کا تصور تاریخ Limearہے۔ تاریخ کے اس تصور میں تاریخ خط مستقیم یا سیدھی لکیر کی صورت میں سفر کرتی ہے اور ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتی ہے اور اپنی اصل سے دور ہوتی چلی جاتی ہے اور اس میں ماضی کی طرف لوٹنے کی نہ خواہش ہوتی ہے نہ صلاحیت۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ماضی کی بازیافت ممکن ہے اور دوسری کسی قوم کے لیے ماضی کی بازیافت ممکن نہیں۔ مسلمانوں کی ماضی سے محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کا ماضی صرف ایک تصور یا ایک Ideaہے۔ اس کا کسی نسل، جغرافیے یا زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس مغرب کے تصور تاریخ پر نسل، جغرافیے اور زبان کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا تصور کہیں بھی خود کو دہرا سکتا ہے مگر مغرب کا تصور نسل، جغرافیے اور زبان کا اسیر ہوگا، آفاقی نہیں ہوگا۔ ان تصورات سے یہ خیال ازخود نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے کہ مسلمانوں کے ماضی کا احیا جب بھی ہوگا مکمل ہوگا۔ دوسری اقوام کا ماضی اوّل تو دہرایا ہی نہیں جاسکے گا اور دہرایا بھی گیا تو وہ جزوی ہوگا، مکمل نہیں۔