دعوے اور صداقتیں

184

ایک حکومت جس کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ قرض بھی نہیں لے گی، ٹیکس بھی نہیں بڑھائے گی، پٹرولیم، گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی نہیں بڑھائے گی۔ اس کی نظر میں نواز دور میں بہت مہنگائی تھی، پٹرولیم، گیس اور بجلی کی قیمتیں بہت ہی زیادہ تھیں اور دعویٰ تھا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ان ساری مصنوعات کی قیمتیں آدھی سے بھی کم ہو جائیں گی نیز بے گھروں کے لیے 50 لاکھ گھر اور بے روزگاروں کے لیے ایک کروڑ ملازمتیں بھی دی جائیں گی اور امن و امان کی صورت حال اتنی مثالی ہوجائے گی کہ لوگ نہ صرف بیرونی ممالک کا رخ کرنا بھول جائیں گے بلکہ یورپ اور امریکا والے بھی پاکستان دوڑ دوڑ کر آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بچپن میں میں نے ’دانا حکیم‘ کا قصہ پڑھا تھا۔ بادشاہ وقت ان کی حکمت و دانائی سے بہت متاثر تھے اور ان کی خواہش تھی کہ وہ ان کے مہمان رہیں بلکہ اگر وہ چاہیں تو حکومت کا بڑے سے بڑا عہدہ لے سکتے ہیں لیکن وہ بہت ہی فقیر منش آدمی تھے اور انہیں گوارا ہی نہیں تھا کہ وہ عیش و آرام کی زندگی گزاریں اس لیے جونہی انہیں موقع ملتا وہ ہزار پہروں کے باوجود بادشاہ کے مہمان خانے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بادشاہ کے پاس سے فرار ہوکر کسی بہت بڑے رئیس کے مطبخ انچارج کے پاس جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ کیوں کہ ان کی کوئی شرط تھی ہی نہیں بس دو وقت کی روٹی اور سرچھپانے کی جگہ۔ ایک شرط یہ تھی کہ تمہارے رئیس کے علم میں یہ بات نہ آئے کہ میں تمہارے پاس ہوں۔ اس نے پوچھا کہ کیا جواز ہے جو آپ کو رکھوں، کہا کہ سیکڑوں کھانے پکا بھی سکتا ہوں اور ان کے پکانے کی تراکیب بھی بتا سکتا ہوں۔ اندھے کو کیا چاہیے دوآنکھیں۔ چناں چہ وہ خوش دلی سے راضی ہوگیا۔ رئیس نئے نئے ذائقے اور مزیدار مزیدا کھانوں کو دسترخوان پر سجے دیکھ کر خوش تو ہوا لیکن اس تشویش میں ضرور مبتلا ہو گیا کہ اس کا باورچی کب سے اتنا قابل ہوگیا کہ ہر روز نئے نئے پکوان دستر خوان پر سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ آخر کار اسے اپنے رئیس کو ماجرہ بتانا پڑا۔ اسے سن کر حیرت ہوئی کہ اتنی معمولی شرائط پر کوئی اتنا ماہر پکوان تیار کرنے والا اسے مل گیا ہے۔
رئیس اور باد شاہ میں بہت قربت تھی۔ مزے مزے کے پکوان کی شہرت جب باد شاہ کے کانوں تک پہنچی تو اس نے رئیس سے ملاقات کا قصد کیا۔ جب رئیس کو بادشاہ کے آنے کی خبر ہوئی تو مطبخ انچار سے کہا کہ بادشاہ سلامت تشریف لا رہے ہیں ان کے لیے دنیا کی کوئی ایسی چیز پکانا جس سے اچھی کوئی بھی شے نہ ہو۔ اس نے دانا حکیم سے سارا ماجرہ کہا۔ دانا حکیم نے کہا کہ اسپیشل ڈش کے طور پر ’’زبان‘ تیار کرو۔ یہ سن کر مطبخ کا انچار بہت پریشان ہوا لیکن دانا حکیم نے کہا کہ اگر کوئی بات بگڑجائے تو مجھے آگے کر دینا۔ جب کھانے کے طور پر بادشاہ نے ڈش کھولی تو اس میں بہت سارے جانوروں کی زبانیں رکھی ہوئی تھیں۔ بادشاہ حیران ہوا اور رئیس پریشان۔ عزت یوں رہ گئی کہ ایک ہی لقمے نے وہ ذائقہ دیا کہ بادشاہ انگلیاں چاٹتا رہ گیا۔ رئیس کو یہ بات بری تو بہت لگی لیکن اس نے باورچی کو کچھ کہنے کے بجائے کہا کہ اب کوئی ایسی چیز پکاؤ جو دنیا کی سب سے خراب چیز ہو۔ باورچی نے دانا حکیم سے ماجرہ کہا تو دانا حکیم نے پھر زبانیں پکانے کا مشورہ دیا۔ کھانے کے دوران جب بادشاہ نے ڈش کھولی تو وہ اور رئیس یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آج بھی زبانیں ہی تھیں۔ رائیس نے باورچی کو بلا بھیجا۔ باورچی سے رائیس سے کہا کہ جب میں نے دنیا کی سب سے اچھی چیز پکانے کو کہا تھا تب بھی زبانیں پیش کی گئی تھیں اور جب میں نے سب سے خراب شے پکانے کا کہا تب بھی زبانیں پیش کی گئیں۔ آخر ایسا کیوں؟۔ دانا حکیم نے باورچی کو پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ اگر اس سے ایسے سوالات کیے جائیں تو اسے کیا جواب دینا ہے۔ باورچی نے کہا کہ زبان سے اچھی دنیا میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اگر یہ اچھی ہو تو دنیا جنت نظیر بن جاتی ہے اور اس سے خراب بھی دنیا میں کوئی چیز نہیں ہوتی کیوں کہ اسی کی وجہ سے پورا جہان جہنم بن جاتا ہے۔ بادشاہ باورچی کی بات سن کر ایک دم اچھل پڑا اور کہا ایسا تم نہیں سوچ سکتے، بتاؤ یہ بات تم کو کس نے بتائی۔ اسے دانا حکیم کے متعلق بنانا پڑ گیا۔ بادشاہ کو تو اس کی تلاش ہی تھی لیکن جب اسے پکڑنے کے لیے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ دانا حکیم پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں۔
جس زبان سے عوام کو خوش کیا گیا، لوگوں کو اپنا ہمنوا بنایا گیا، افراد کی رائے اپنے حق میں ہموار کی گئی اس سے اچھی زبان کون سی ہو سکتی تھی اور جب وہی عوام سن رہے ہوں گے کہ قرض بھی لیا جائے گا، اور لے لیا گیا۔ ٹیکس میں اضافہ بھی کیا جائے گا اور کردیا گیا۔ گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھائی جائیں گی اور ہوشربا انداز میں بڑھادی گئیں۔ امن و امان کی صورت حال ایسی بنادی جائے گی کہ لوگ باہر جانے کے متعلق سوچنا بھی چھوڑ دیں گے لیکن اس میں تاحال کامیابی نہ ہو سکی۔ ایک کروڑ ملازمتیں ملیں گی لیکن ملازمتیوں سے باہر کردینے والے اقدام سامنے آنے لگے۔ 50 لاکھ گھر بنا کر بے گھروں میں تقسیم کیے جائیں گے اس کے بر عکس گھر مسمار کیے جانے کی خبریں سننے میں آنے لگیں۔ دکانیں توڑی جارہی ہیں، گھروں سے 1947 سے آباد افراد کو بے گھر کیا جارہا ہو تو پھر وہی ایک اچھی زبان نہایت کریہہ نہیں لگنے لگے گی؟۔ ثابت یہی ہوا نہ کہ دنیا کی سب سے اچھی چیز بھی زبان ہوئی اور دنیا کی خراب ترین شے بھی زبان ہی ہوئی۔
زبان سے پھر جانے کے سلسلے میں نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک خبر کے مطابق اقتصادی مشاورتی کونسل نے غربت مٹاؤ پروگرام کے لیے عالمی بینک سے 4 کروڑ 20 لاکھ ڈالر قرض لینے کی منظوری دی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ غربت ختم کرنے کے نام پر بھی قرضے کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ایک ایسا غریب جو پہلے ہی غربت کے ہاتھوں پریشان ہو اور لوگوں سے ادھار مانگ مانگ کر سر اٹھاکر چلنے کے بھی قابل نہ رہ گیا ہو اور مجبور ہو کہ اپنی زندگی کی سانسوں کو بحال رکھنے کے لیے بھی قرض لے، اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ مزید قرض لے کر اپنی غربت دور کر سکے۔ یہ ایسی منطق ہے جو عقل و سمجھ سے ماورا ہے۔
کیسی عجیب بات ہے ایک ایسی پارٹی جس کے انتخاب سے قبل کے دعوے کچھ اور ہوا کرتے تھے اب عوام کو اسی کی زبان سے یہ خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ آپ کی غربت کا حل یہ ہے کہ آپ کی خاطر ایک اور قرض لیا جائے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ قرض لے لے کر گزشتہ حکومتیں بھی ملک چلاتی رہی ہیں اور اگر اب بھی پاکستان کو بغیر قرض چلانا ممکن نہیں تو پھر نئی آنے والی حکومت میں نیا کیا ہے؟۔ نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیرخزانہ اسدعمر کا یہ اعتراف کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، حکومت کو درست فیصلے کرنے ہوں گے، اصل میں نئے پاکستان کے دعووں کی قلعی کھول رہا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کو بھی اپنے اپنے دعوں کے برعکس مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان عوام میں غیر مقبول بنا گیا۔ جب وہ جماعتیں غیر مقبول ہو سکتی ہیں تو موجودہ حکومت کو بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اس لیے کہ یہی بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری ان کو بھی گرداب میں پھنسا سکتی ہے۔ رہی کرپشن کا شور تو خود موجودہ حکومت کے وزیروں اور مشیروں میں بھی فرشتے نہیں بلکہ زیادہ تر پرانے پاپی ہی ہیں۔ چور چوری سے تو باز آسکتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے کبھی باز نہیں آسکتا۔
کچھ بھی ہو، یہ بات طے ہے کہ جس بری طرح یوٹرن پر یوٹرن لیے جارہے ہیں اور وعدہ خلافیوں پر وعدہ خلافیاں ہو رہی ہیں، قرض لیے جارہے ہیں، مہنگائی در مہنگائی کی جانب گامزن ہوا جا رہا، ایک دن یہ سب وعدہ خلافیاں موجودہ حکومت کو بہا لے جائیں گی۔ ضروری ہے کہ اگر یوٹرن لینا ہی ہے تو اپنے وعدوں اور دعووں کی جانب یوٹرن لیا جائے۔ اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہوا جائے اور عوام میں اپنا اعتماد بحال کیا جائے ورنہ برے دن شروع ہوتے د یر کبھی نہیں لگا کرتی۔