قانونی جائداد مسمار، تجاوزات موجود

118

کراچی میں انسداد تجاوزات کے خلاف ہونے والے اقدامات کی آڑ میں آخر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے ؟ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر ایک طرف تو قانونی جائیدادیں مسمار کی جارہی ہیں تو دوسری طرف اصل تجاوزات کے خاتمے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔ تجاوزات کے خاتمے کی ساری توجہ کراچی جنوبی میں ہے اور ایمپریس مارکیٹ کی طرح جس میں قانونی دکانیں دیکھتے ہی دیکھتے مسمار کردی گئیں ۔ اسی طرح زولوجیکل گارڈن میں جو عرف عام میں گاندھی گارڈن کے نام سے مشہور ہے ، میں قیام پاکستان سے قبل کی قائم دکانوں کو بھی توڑ دیا گیا ہے ۔ یہ دکاندار بلدیہ کے قانونی کرائے دار تھے اور باقاعدگی سے کرایہ ادا کررہے تھے ۔ یہ بات سنجیدہ غور کی متقاضی ہے کہ آخر کراچی جنوبی میں ایسی کیا دلچسپی ہے کہ قانونی اور غیر قانونی کی تخصیص کیے بغیر یہاں پر صفائی جاری ہے ۔ اگر کسی مقصد کے لیے بلدیہ کو یہ قانونی جائیدادیں خالی ہی کروانی ہیں تو قانون کے مطابق ان کو اس کی مناسب ادائیگی کرنی چاہیے ۔ مگر حقیقت میں ہو یہ رہا ہے کہ دن اور رات صرف اور صرف توڑنے کا عمل جاری ہے ۔ توڑنے کی اتنی جلدی ہے کہ رات میں بھی یہ عمل جاری رہتا ہے ۔ اس کے بعد ملبہ وہیں موجود رہتا ہے ۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک نہ تو ملبہ اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی متاثرین کی اشک شوئی کی گئی ہے ۔ کراچی جنوبی کے علاوہ کراچی کے دیگر اضلاع میں بھی تجاوزات کے خلاف کارروائی صرف نمائشی اقدامات تک ہی محدود ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کراچی جنوبی میں کوئی خاص کھیل کھیلا جانے والا ہے ۔ جس کے لیے کام جاری ہے ۔ اگر تجاوزات کے خلاف کارروائی مقصود ہوتی تو پورے کراچی میں بلاتخصیص پارکوں، رفاہی پلاٹوں اور فٹ پاتھوں پر قائم تجاوزات کا فوری طور پر خاتمہ کیا جاتا ۔ مگر پارکوں، رفاہی پلاٹوں اور فٹ پاتھوں پر تجاوزات کے ساتھ ساتھ پتھاروں اور ٹھیلوں نے کراچی کی تقریبا تمام ہی سڑکوں کو نصف سے زاید گھیر رکھا ہے مگر اس طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔ آخر میئر کراچی وسیم اختر کس کے اشاروں پر یہ سب اور کیوں کررہے ہیں ۔ منصب کے لحاظ سے وسیم اختر کراچی کے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ان کے اقدامات کراچی دشمنی پر مبنی ہیں ۔ کراچی میں ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہیں ۔ تجاوزات کی آڑ میں توڑ پھوڑ کے بعد اب تک اس کا ملبہ ہر طرف بکھرا پڑا ہے ۔ جب اس کی صفائی کی بات کی جائے تو وسیم اختر فنڈز کی کمی اور اختیارات کے نہ ہونے کا رونا رہتے ہیں مگر جب قانونی جائیدادوں کو توڑنے کی باری آتی ہے تو حیرت انگیز طور پر وسیم اختر کے پاس دن کے ساتھ ساتھ رات میں بھی یہ بھاری مشینری موجود ہوتی ہے ۔ کراچی کے شہری یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے ؟تجاوزات کے خاتمے کے بجائے قانونی جائیدادیں کیوں مسمار کی جارہی ہیں ۔ حیرت انگیزطور پر اس بارے میں سندھ حکومت بھی مہر بہ لب ہے ، عدلیہ میں بھی خاموشی چھائی ہوئی ہے اور سیاسی جماعتوں نے بھی آنکھیں بند کررکھی ہیں ۔ آخر وہ کون سی چھڑی ہے جس نے سب کو اس بارے میں آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔کراچی کے نمائندوں کو چاہیے کہ وہ کراچی کی نمائندگی کا حق ادا کریں اور اس بارے میں حقائق کو منظر عام پر لائیں ۔ اگر کراچی کے خلاف کوئی سازش کی جارہی ہے تو اس کے خلاف آواز بلند کریں ۔