پارلیمنٹ کی بالادستی ضروری ہے

161

جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن اپوزیشن اتحاد کے لیے سرگرم ہیں۔ نئی کوششیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے 24 گھنٹے میں پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری سے دو ملاقاتیں کی ہیں۔ اس حوالے سے بلاول زرداری نے بھی ایک اشارہ دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ احتساب کے نام پر ایک اور وزیراعظم کو نکال دیا گیا وفاق خطرے میں ہے۔ کروڑوں ووٹ چرانے والوں کا احتساب کب ہوگا۔ بلاول زرداری کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کوئی غیر منتخب شخص دو تہائی اکثریت سے منظور کردہ آئین ختم نہیں کر سکتا اور یہ کہ احتساب کے نام پر صرف اپوزیشن نشانے پر ہے۔ یہی بات مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کی ملاقات میں بھی دہرائی گئی اور حزب اختلاف کے خلاف کارروائیوں پر تشویش ظاہر کی گئی۔ پی ٹی آئی حکومت آنے سے قبل اور بعد میں بھی جو سلسلہ چل رہا ہے اسے بلاشبہ دو ہی پارٹیوں کے خلاف کارروائی سمجھا جارہا ہے۔ سیاسی حلقے تو پاناما لیکس سے اب تک ہونے والی ساری کارروائیوں کو ایک ہی سلسلے کی کڑی تصور کرتے ہیں۔ پہلے حصے کو پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لیے اور دوسرے حصے کو آسانی سے حکومت چلانے کے لیے ماحول سازگار بنانے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول زرداری، آصف زرداری او رمولانا فضل الرحمن جس اپوزیشن اتحاد اور دو تہائی اکثریت سے منظور کردہ دستور کی بات کررہے ہیں وہ یقیناً قابل احترام دستاویز ہے لیکن یہی رہنما اور مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے ادوار حکومت میں کیا کرتی رہی ہیں۔ اس آئین کے ساتھ کھیل تو ان ہی حکمرانوں نے بھی کیا ہے۔ اب دو بڑی پارٹیاں مشکل میں ہیں تو انہیں گرینڈ الائنس کے بغیر چارہ نظر نہیں آرہا۔ اس وقت تو اس مشکل سے نکلنے کا راستہ گرینڈ الائنس ہی نظر آرہا ہے لیکن اس میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ گرینڈ الائنس بن سکے گا؟؟ اس کے لیے بہت کچھ چھوڑنا اور بہت کچھ قبول کرنا پڑتا ہے اگر یہ الائنس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا بننا ہے تو یہ دونوں ہر دو کام کر لیں گے لیکن پارلیمنٹ کی دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملانا ذرا مشکل ہوگا۔ اسی طرح اگر مولانا فضل الرحمن جے یو آئی کے سربراہ کے طور پر فیصلے کریں تو شاید اس گرینڈ الائنس کا حصہ بن جائیں لیکن ایم ایم اے کے سامنے بہت سے تحفظات ہیں جن کی وضاحت بہرحال ضروری ہو گی۔ بہرحال دونوں رہنماؤں کی ملاقاتوں میں چھوٹے موٹے اختلافات ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے البتہ جس گرینڈ الائنس کی بات کی گئی ہے اس کے لیے بڑے بڑے اختلافات ختم کرنے ہوں گے۔ جہاں تک آئین کے تحفظ کی بات ہے اس کے لیے اگر منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے تو اس کے تحفظ کے لیے بھی پارلیمانی قوت درکار ہے۔ حکومت سے باہر ہونے کے بعد پارلیمنٹ کا وقار یاد آنے کا فائدہ نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بے اختیاری کا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔ عدالت میں بے تحاشا معاملات زیر غور ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ پارلیمنٹ کچھ نہیں کررہی۔ چیف جسٹس بار بار کہہ رہے ہیں کہ حکومت کام نہیں کرے گی تو کوئی اور کرے گا۔ تین ماہ میں ایک قانون بھی نہیں بنایا۔ پھر 18 ویں ترمیم پر انہوں نے تبصرہ کیا کہ بحث کے بغیر منظور کی گئی تھی۔ ایسا محسوس ہوا کہ 18 ویں ترمیم ختم کی جارہی ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ عدالت ایک روز18 ویں ترمیم ختم کرنے کا عندیہ دیتی ہے اور اگلے دن یہ کہا جاتا ہے کہ 18 ویں ترمیم ٹھیک تھی۔ اس رویے کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ لیکن جو بھی کچھ کیاجائے اب پارلیمان کے اندر کیا جائے۔ سڑکوں پر محاذ آرائی نہ کی جائے۔پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو کروڑوں ووٹ چرانے والوں کا احتساب بھی ہوگا۔ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان، نواز شریف دور میں 6 ماہ تک پارلیمنٹ سے باہر رہے، کنٹینر پر کھڑے ہو کر حکومت پر تنقید کرتے رہے۔ یہ ان ہی کے الفاظ تھے کہ حکومت نہیں چلنے دوں گا۔ ان کو اس وقت بھی یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ سڑکوں پر فیصلے کی روایت نہ ڈالیں اگر آپ حکومت میں آگئے تو کیا سڑکوں پر فیصلے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس معاملے پر سب کو سوچنا ہوگا۔