!قوم نہیں ہجوم

188

چوں کہ ہم ایک ’’ہجوم‘‘ ہیں، قوم نہیں اس لیے ہمیں قومی سطح کی بڑی بڑی باتیں کرنا بھی زیب نہیں دیتا۔ قوم کے مفاد کی گفتگو تو صرف ان ہی کو کرنی چاہیے جو اپنے رزق حلال اور محنت سے دوسروں کے مفادات کا خیال رکھنے کے عادی ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے پلنے والے ’’عوامی نمائندے‘‘ بھی کہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ زیادہ سے زیادہ انہیں ’’خدمت گار‘‘ کہا جاسکتا ہے جو معاوضہ کے عوض قوم کی خدمت کی آڑ میں اپنی اور اپنے گرد و نواح کے لوگوں کی آسائش و آسانی کے لیے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بھی واضح ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کی رقوم سے وزیراعظم، وزراء اور مشیران نہیں بلکہ صرف حکومتوں کا عوام کو سہولتیں فراہم کرنے والا نظام چلا کرتا ہے جو بدقسمتی سے یہاں یا تو ہے ہی نہیں یا چلایا نہیں جارہا۔
ہاں ہمارے پاس بعض ایسے نظام بھی ہیں جو ’’بہت خوب‘‘ چل رہے ہیں۔ ان نظاموں کا تعلق نہ جمہوری حکومت سے ہے اور نا ہی آمریت سے ہے وہ تو صرف ایک ’’سسٹم‘‘ ہے۔ یہ نظام مزاروں، آستانوں کے ساتھ فحاشی، شراب اور جوئے سٹے کے اڈوں کا ہے۔ یہ سارے ’’منظم کاروبار‘‘ (systematic business) ہیں۔ ان سب کا اصول بہت سخت ہے ان کے بارے میں متعلقہ لوگوں کہنا ہے کہ ’’ہمارے کاروبار میں نا بے اصولی ہے اور نا ہی بے ایمانی‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ تمام ’’کاروبار‘‘ روز بروز خوب پھل پھول رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کاروبار کے قدر دانوں میں ملک کے غریب افراد ہی نہیں بلکہ خاص الخاص شخصیات، سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر سے لیکر اسلام آباد اور کراچی تک ’’مزارات‘‘ کے نظام کی آمدنی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جبکہ جوئے، سٹے اور شراب خانوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جاچکا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو رپورٹ کے مطابق پنجاب کے بعد سب سے زیادہ مزارات آزاد کشمیر میں ہیں۔ ان مزارات اور درباروں کی سالانہ آمدنی 16 کروڑ 98 لاکھ 79 ہزار روپے ہے۔ جبکہ لاہور کے ایک مشہور دربار میں صرف جوتے رکھنے کا ٹھیکا دو کروڑ روپے کا ہے۔ اس ٹھیکے کی بولی اور اس کی کل آمدنی کیا ہوتی ہے اس بات کا علم نہیں۔ تاہم یہ معلوم ہوسکا کہ اس ایک دربار کو گزشتہ سال ریکارڈ آمدنی 25 کروڑ 97 لاکھ 25 ہزار روپے ہوئی تھی۔ جبکہ دیگر مزارات میں مزار پیر مکی کی سالانہ آمدنی 48 لاکھ روپے ہے اسی طرح مزار میاں میر 10 لاکھ، مادھو لال چھ لاکھ روپے، بی بی پاک دامن 31 لاکھ روپے اور مزار شاہ رکن 24 لاکھ روپے ہے۔
یہ تو چند مزارات اور درباروں کا ذکر ہے۔ ان میں کراچی کے مزارات شامل نہیں ہیں۔ ملک بھر میں بیش تر مزارات کا کنٹرول محکمہ اوقاف کے پاس ہے جو آئین کی 18 ویں ترمیم جسے میں ’’چائنا کٹنگ‘‘ کہا کرتا ہوں کے تحت صوبوں کے زیر نگرانی چلا کرتے ہیں۔ سندھ تو ان دنوں وہ ریاست بنی ہوئی ہے جہاں ’’زرداری بادشاہ‘‘ کی بادشاہت ہے۔ یہ بادشاہت جمہوری لبادے میں قائم ہے۔ مگر اس کے محل بھی کسی ’’آستانے‘‘ سے کم نہیں ہے فرق یہ ہے کہ یہاں کے مرید صوبے کے وزیر یا مشیر کہلاتے ہیں۔
ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہونے کے دعووں کے باوجود قانون نام کی کوئی چیز کی یہاں اگر کوئی اہمیت نہیں ہے تو اس کی وجہ بھی وہ سسٹم ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ یہاں غیر قانونی نظام اور اس کے فروغ کا اندازہ لگانا ہے تو آف شور کمپنیوں، منی لانڈرنگ کے اسکینڈلز اور 35 ارب روپے مالیت کے جعلی اکاؤنٹس کی موجودگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اگر جانچنے میں مشکل ہو تو بحریہ ٹاون کے امور اور اس کے مالک ملک ریاض کی زندگی کا جائزہ لینے سے بھی اس سسٹم کو جانا جاسکتا ہے جو روز بروز ترقی کررہا ہے مگر اس سے ملک و قوم کو کوئی بھی فائدہ نہیں ہورہا۔ کیوں کہ یہ نظام بااثر سیاسی، کاروباری اور دیگر شخصیات کی پشت پناہی میں چل رہا ہے۔ اس ’’منظم کاروبار‘‘کے تحت ملک کے سب سے بڑے شہر کے بڑے گھروں پر مشتمل علاقوں میں جوئے، سٹے کے اڈے قائم ہیں، رمی کلب چل رہے ہیں۔ خیال تھا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں وہ ایسے لوگوں تک پہنچ جائیں گے لیکن مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب یہ معلوم چلتا ہے کہ ملک کو اپنے غیر قانونی کاروبار سے نقصان پہنچانے والے سیکڑوں بااثر احتساب کرنے والوں ہی کے دوست ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں سے جب تک لینڈ مافیا، این جی اوز مافیا، منشیات مافیا اور جوا سٹہ مافیاوں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک جدوجہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان مافیاؤں کی موجودگی کے باعث غیر قانونی نظام کو تقویت ملتی رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ انہیں ختم کرنے کے لیے یہ محنت کون کرے گا؟