ارے جاتے جاتے چیف جسٹس پاکستان یہ کیا کہہ گئے کہ ہمارے ہاں ریاست مدینہ جیسا انصاف کا ادارہ نہیں۔ ترقی کے لیے ایماندار قیادت ضروری ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ عدلیہ حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوجائے تو معاشرہ متوازن نہیں رہتا۔ اسے کس کے خلاف ازخود نوٹس کہا جائے۔ ایسا لگتا ہے چیف جسٹس نے سراج الحق صاحب کی درخواست قبول کرلی ہے۔ انہوں نے چند روز پیشتر کہا تھا کہ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل عدلیہ کے معاملات پر بھی ازخود نوٹس لیں۔ لیکن اس بیان نے تو حیران کردیا۔ چیف جسٹس طویل عرصے سے عدالتوں سے وابستہ رہے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ہمارے یہاں ریاست مدینہ جیسا انصاف کا ادارہ نہیں ہے۔ جناب چیف صاحب نے ریٹائرمنٹ سے صرف دس روز قبل یہ بات کہی۔ اگر دو سال قبل کردیتے تو انہیں یاد دلادیتے کہ جس ادارے میں آپ ہیں اور آج کل چیف ہیں یہی وہ ادارہ ہے جو ریاست مدینہ میں موجود تھا اور انصاف دیتا تھا۔ اصل بات ادارہ نہیں ہے بلکہ ارادہ ہے۔ پاکستان میں ریاست مدینہ جیسا ہر ادارہ ہے لیکن جن لوگوں کے ہاتھوں میں کوئی بھی ادارہ ہے اُن کا ارادہ نہیں ہے۔ جب ارادہ نہ ہو تو ادارہ کس کام کا۔ اگر پارلیمنٹ کا ذکر کیا جائے تو اسے مجلس شوریٰ کہا جاتا ہے۔ آئین میں بھی یہی نام دیا گیا ہے لیکن اس مجلس کے ارکان کا اس مجلس میں مشاورت کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا فیصلے کہیں ہوتے ہیں اور حکومت اور پارلیمنٹ انگوٹھا لگادیتی ہے۔ ارادہ جو نہیں ہوتا۔
پاکستان میں مجلس شوریٰ کے بعد اہم ترین ادارہ عدلیہ کا ہے جس کے سربراہ کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں مدینہ کی ریاست جیسا انصاف کا ادارہ نہیں ہے۔ معاملہ یہاں بھی وہی ہے اگر اس ادارے کے ذمے داروں کا انصاف دینے کا ارادہ ہوتا تو آج پاکستان کا معاشرہ متوازن ہوتا۔ یہی تو رونا ہے کہ انصاف دینے والوں نے انصاف نہیں دیا۔ اب تو اور رونا آیا کہ ادارے کا سربراہ اس سیٹ پر بیٹھ کر جاتے وقت کہہ رہا ہے کہ ملک میں انصاف کا ادارہ نہیں۔ ارے آپ اسی ادارے کے سربراہ رہے جس میں عوام کے آئینی حقوق کا تحفظ نہ کیا جاسکا اور اس کی وجہ سے معاشرہ غیر متوازن ہوگیا۔ آپ نے خود فرمایا کہ کسی غریب نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ لیکن جناب صرف امیر ہی ظالم نہیں ہوتا۔ طاقتور بھی ظالم ہیں ان کے معاملے میں عدلیہ کا انداز ویسا نہیں جیسا چند سیاستدانوں اور
چند سرکاری افسران کے ساتھ ہے۔ ان افسران پر لعنت بھیجنا تو عدلیہ کے سربراہ کا کام نہیں۔ اسی طرح افراد کی عزت خراب کرنا بھی اس ادارے کا کام نہیں۔ چیف صاحب کا یہ بیان تو براہ راست عدلیہ اور خود ان کے لیے ایک ازخود نوٹس ہے اس پر سماعت کون کرے گا اور فیصلہ کب اور کون کرے گا اس کا انتظار ہے۔ انہوں نے مثال دی ہے کہ ریاست مدینہ میں حضرت عمرؓ کا دور بہترین انصاف کے اعتبار سے مثالی تھا۔ حالاں کہ ریاست مدینہ میں انصاف کی بنیاد حضورؐ نے رکھی اور چوری کے اس مشہور واقعے کو سامنے رکھیں جس میں ایک لڑکی فاطمہ نے چوری کی تھی تو حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرتی تو میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا۔ بہرحال حضورؐ سے لے کر خلفائے راشدین اور بعد کے خلفا نے بھی انصاف کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ اگر دس روز میں وقت ہو تو عدل کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام ملاحظہ فرمالیں۔ چیف صاحب ادارہ موجود ہے لیکن ارادہ نہیں، اس لیے عوام کو لاپتا کرنے والے طاقتور اداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ آئین کو تین مرتبہ معطل کرنے والے جنرل پرویز صاف بچ کر ملک سے نکل گئے، بحریہ ٹاؤن والے مزے میں ہیں، 15 برس سے ڈاکٹر عافیہ امریکی قید میں ہے، 4 سو افراد کے قتل کا ملزم وی آئی پی نظر بندی میں ہے، مسئلہ حل نہیں ہوا، 12 مئی کے قتل عام کا فیصلہ نہیں ہوا، اصغر خان کیس لپیٹ دیا گیا، فیصلہ نہ ہوسکنے کی وجہ پردے داروں کے نام۔۔۔ حسین حقانی کو پاکستان سے جانے دیا گیا، مشرف کو جانے دیا گیا، ایان علی کیس کا فیصلہ نہ ہوسکا، آسیہ ملعونہ کیس کا فیصلہ نہیں ہوا، اپنے ہاتھوں لیے ہوئے ازخود نوٹسوں پر کیا فیصلے ہوئے، اس کا سبب ہے کہ ہاتھوں میں انگریزی قانون کی کتاب ہے۔ دستور پاکستان قرآن و سنت کو بالادست تسلیم کرتا ہے، عدلیہ فیصلے قرآن و سنت کے بجائے کسی اور کتاب سے کرتی ہے، کسی طاقتور ادارے کے خلاف فیصلہ نہیں ہوتا، پورے دور میں صرف شریف خاندان لٹک گیا ان پر دباؤ رکھنے اور ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے زرداری خاندان پھنسا ہوا ہے۔ باقی کیا بچا۔ اگر نئے آنے والے چیف یا عدلیہ میں بحیثیت ادارہ انصاف دینے کا ارادہ ہو تو انگریز کی کتاب رکھ کر قرآن و سنت کے مطابق فیصلے دیں۔ ادارہ موجود ہے، ارادہ نہیں۔ ہم نے تو چند مقدمات کا ذکر کیا ہے ان مقدمات کا ذکر الگ ہے کہ موت کے 17 برس بعد ملزم بے گناہ قرار دیا گیا، ایسے مقدمات اور بھی ہیں۔ زیر التوا مقدمات پر بھی نوٹس لیا جائے تو سارے جج کٹہرے میں ہوں گے۔ عدم پیشی والے مقدمات کی بھرمار ہے ارادہ نہیں ہو تو ادارہ بے کار ہے۔