پارلیمانی اپوزیشن ہی گرینڈ الائنس ہے

160

پارلیمانی نظام جہاں ایک متحرک حکومت کا نام ہوتا ہے وہیں ایک فعال اپوزیشن کے بغیر اس نظام کی تکمیل نہیں ہوتی۔ دو میں سے ایک پہیہ بھی اپنا اصل کردار ادا کرنے سے قاصر ہو تو سسٹم کی گاڑی منزل کی جانب رواں دواں نہیں رہتی۔ پارلیمانی جمہوریت کی منزل عوام کی خوش حالی، ان کا مفاد، ان کے روزگار، زندگی کا تحفظ ہوتی ہے۔ جمہوریت کا تصور ہی عوام سے، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے سے عبارت ہوتا ہے۔ اس طرح جمہوری نظام میں ذمے دار حکومت کے ساتھ ساتھ ذمے دار اپوزیشن بھی ناگزیر ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے شدید تنقید ومحاسبے کی زد میں ہے۔ میڈیا، عدلیہ اور اپوزیشن حکومت کی ایک ایک ادا پر نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ پوسٹ مارٹم کرنے میں بھی لمحوں کی دیر نہیں لگاتا۔ عدلیہ پنجاب حکومت کو برسرعام نکمے پن اور نااہلی کی سند جاری کرنے کے لیے کسی ٹی وی ٹاک شو یا کسی اخباری خبر کے تراشے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر تبصرہ کرتی ہے۔ حکومت اپنی ناتجربہ کاری کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ حکومت پر کئی نظریں لگی ہیں اور اس کے پاس غلطی کی گنجائش پہلے ہی کم ہے اس کے باجود حکومت کا ’’حوصلہ‘‘ ہے کہ وہ تنقید سمیٹتی اور غلطیاں کیے جا رہی ہے۔ حکومت اگر اگلے سفر میں انہی غلطیوں کا اپنا اتالیق بنا لے تو شاید سفر آسان ہوجائے۔ اس ماحول میں حکومت کو سہارا دینے کے لیے معاملہ فہم اور ذمے دار اپوزیشن کا وجود ناگزیر ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ دو ملاقاتیں کیں تو ملک میں گرینڈ اپوزیشن کے قیام کی افواہیں چلنے لگیں۔ گرینڈ الائنس کی اصطلاح سنتے ہی احتجاجی سیاست اور کنٹینر پر کھڑی اور ریل میں گھومتی سیاسی قیادت کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ پرامن احتجاج اور اجتماع ہر سیاسی جماعت اور شہری کا بنیادی حق ہوتا اور ملکی آئین بھی اس حق کا دفاع کرتا ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر حکومت اور نظام کا احتجاجی سیاست کے ذریعے جھٹکا کرنے کا نتیجہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ ہر اتھل پتھل کے بعد سفر کو دوبارہ صفر سے شروع کرنا پڑا۔ موجودہ حکومت تو ایک پارلیمانی دھکے کی مار ہے۔ اسے گرانے، دبانے یا جھکانے کے لیے پارلیمان کے اندر زیادہ محنت کی ضرورت بھی نہیں۔ تو ایسے میں گرینڈ الائنس کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔ ملک کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی خود اپنے ماضی کے بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ ان کے مسائل کی نوعیت مختلف ہے۔ ان کے لیے حکومت کو گرانے اور پچھاڑنے سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ حکومت اور احتساب کے ادارے اپنا ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیں۔ اندر والوں کے لیے جیلوں کے پھاٹک کھل جائیں اور باہر والوں کے لیے یہ پھاٹک بند ہی رہیں اور راوی چین ہی چین لکھتا رہے۔ یہ جیو اور جینے دو کا آسان اور آزمودہ نسخہ ہے جسے چودھری شجاعت حسین کے تاریخی جملے ’’مٹی پاؤ‘‘ کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ مچھر اگر دھویں سے مرتا ہو تو اس کے لیے توپ کا استعمال کیوں کیا جائے کے مصداق یہ کام دھونس دھمکی سے ہورہا ہو تو اس کے لیے سڑکوں اور کنٹینروں کا راستہ کیوں اپنایا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کی آصف زرداری کے ساتھ دو ملاقاتوں نے گرینڈ الائنس کا جو غبارا فضاؤں میں چھوڑا ہی تھا کہ بلاول زرداری نے ایک جملے کی سُوئی چبھو کر غبارے کو واپس زمین پر پہنچا دیا۔ بلاول نے کہا کہ گرینڈ الائنس کی طرف نہیں جا رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ایشو ٹو ایشو معاملات طے ہوں گے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن بھی گرینڈ الائنس کی افواہوں کے معاملے پر سرد مہری کا مظاہرہ کر چکی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذمے دار اور متحرک پارلیمانی نظام میں پارلیمانی اپوزیشن ہی گرینڈ الائنس ہوتی ہے اور منتخب قائد حزب اختلاف اس الائنس کا سربراہ ہوتا ہے۔ موجودہ اپوزیشن میں پارلیمنٹ کے باہر اہمیت رکھنے والی ہر سیاسی جماعت کی کم یا زیادہ مگر نمائندگی موجود ہے۔ مصطفی کمال کی پی ایس پی شاید واحد سیاسی جماعت ہے جو پارلیمنٹ میں موجود نہیں۔ اس کے سوا پارلیمانی سیاست کے دھارے میں بہنے والی اور اس نظام پر یقین رکھنے والی ہر سیاسی، علاقائی، دینی اور لبرل جماعت کی نمائندگی پارلیمنٹ میں موجود ہے۔ اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اپنے کردار کو موثر بنا کر حکومت کو راہ راست پر رکھ سکتی ہیں۔ یہ اپوزیشن کرنے کا تصادم اور احتجاج سے زیادہ پائیدار اور باوقار انداز ہے۔ جب موجودہ حکمران کنٹینر پر تھے تو آج کی یہی اپوزیشن انہیں کنٹینر سے اُتر کر فلور آف دی ہاؤس پر آکر بات کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ اس لیے موجودہ حکمران جہاں اپنے ماضی کے دعوؤں کی قید اور حصار میں ہیں وہیں آج کی اپوزیشن بھی بہت سے حوالوں سے اپنے ماضی کے موقف کی قید میں ہے۔ ماضی قریب میں اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر اپنا موثر کردار ادا کرنے سے گریز کیا۔ حکومت اور اپوزیشن نے جیو اور جینے دو کے اصول کا غلط انداز سے حالات پر اطلاق کرکے حقیقت میں ایک خلا کو جنم دیا۔ اپوزیشن کے اس طرز عمل کے باعث حکومت نے پارلیمنٹ کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ وزرائے اعظم بالخصوص میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ میں آمد کو ایک ناگوار فریضے کے طور پر ادا کیا۔ اپوزیشن حکومت کو صحیح راستے پر نہ رکھ سکی۔ خورشید شاہ اس نرالی طرز اپوزیشن کے بانی ہیں۔ اب جہاں حکومت کو اپنی اداؤں اور رویوں پر غور کرنے اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے وہیں اپوزیشن کو حکومت کی سمت درست رکھنے کے لیے ماضی قریب میں اپنائے ہوئے انداز کو بدل کر فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔