حُبِّ رسول ؐ کا معیار اور تقاضے 

406

رسول اللہ ؐ کی محبت جوہر ایمان اور حقیقت ایمان ہے، آپ ؐ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں (اور دوسری حدیث میں) آپ ؐ نے خاندان اور مال کا بھی ذکر فرمایا، (مسلم)‘‘۔ ان احادیثِ مبارکہ میں مومن کے لیے رسول اللہ ؐ کی اَحَبِیَّتْ یعنی سب سے زیادہ محبوب ہونے (Superlative Degree) کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی شرح میں علماء نے فرمایا: جس شخص کے دل میں نفسِ محبت رسول نہیں، وہ نفسِ ایمان سے محروم ہے اور جس کے دل میں کمالِ محبت رسول نہیں ہے، وہ کمالِ ایمان کی سعادت سے محروم ہے۔
محبتِ رسول ؐ کا دعویٰ تو ہر ایک بڑھ چڑھ کر کرتا ہے، لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی کسوٹی بھی بیان فرمائی ہے، جیسے: دنیا میں چیزوں کے لیے کوالٹی کنٹرول اور معیارات یعنی Standardization کے پیمانے ہیں، اسی طرح ایمان کو جانچنے کے معیارات بھی قرآن و حدیث میں بیان فرمائے گئے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اے رسولؐ!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے آباء (واجداد)، تمہارے بیٹے (بیٹیاں)، تمہارے بھائی (بہنیں)، تمہاری بیویاں (یا شوہر) تمہارا خاندان، تمہارا کمایا ہوا مال، (تمہاری) تجارت جس کے خسارے میں جانے کا تمہیں کھٹکا لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات، (اگر یہ سب چیزیں جداجدا اور مل کر بھی) تمہیں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں، تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے (عذاب کا) فیصلہ صادر فرماد ے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت (سے فیض یاب) نہیں فرماتا، (التوبہ: 24)‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ میں تقابل کے طور پر جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ سب انسان کے محبوب رشتے اور پسندیدہ چیزیں ہیں۔ اگر ان سے محبت کی نفی کو ایمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو تا تو خلافِ فطرت ہوتا اور اسلام دین فطرت ہے۔ ان چیزوں کے محبوب ہونے کو ایمان کی ضد قرار نہیں دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول مکرم اور اس کی راہ میں جہاد کے مقابلے میں محبوب ترین ہونے کو ایمان کے منافی فرمایا گیا ہے۔ گویا تمہارا محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے، لیکن محبوب ترین صرف تین چیزیں ہونی چاہییں، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات، اس کے رسولِ مکرم ؐ کی ذاتِ گرامی اور راہِ خدا میں جہاد۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کیسے جانا جائے کہ فلاں شخص کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سب سے زیادہ محبوب ہیں یا کوئی اور چیز؟۔
پس جب نفس کی خواہشات، مرغوبات اور مرضیات (Demands) اللہ کے حکم سے متصادم ہو جائیں تو پھر پتا چلے گا کہ انسان ربّ کے حکم کو ترجیح دیتا ہے یا اپنے اور اپنے پیاروں کے نفسانی مطالبات کو، مثلاً: ایک شخص کے بیوی بچوں کی فرمائشیں اس کی آمدنی کے حلال ذرائع سے پوری نہیں ہوتیں، تو وہ ان کو پورا کرنے کے لیے رشوت یا حرام ذرائع کا سہارا لیتا ہے، تو گویا عملاً اس نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا اور اپنے پیاروں کی فرمائشوں کی تکمیل کو ترجیح دی، تو پھر عمل کی دنیا میں یہی چیزیں محبوب ترین قرار پائیں۔ درحقیقت ایمان کی حقیقی آزمائش یہی ہے اور اس مرحلۂ امتحان سے ہمیں دن میں کئی بار دو چار ہونا پڑتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا: ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا، جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے، (الفرقان: 43)‘‘۔ گویا باری تعالیٰ کے حکم کے مقابل اپنے نفس کی خواہشات کو ترجیح دینا اسے خدا ہی تو بنانا ہے، یہ بھی کوئی بندگی ہے کہ سجدہ تو اللہ کے حضور کرے اور حکم نفس کا یا غیر اللہ کا مانے، یہ معبود بنانا نہیں تو اورکیا ہے۔ پھر سیاقِ کلام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ؐ کی کمال محبوبیت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر فرماکر یہ واضح فرمادیا کہ محبت رسول اور محبت الٰہی کی منزل اتنی آسان نہیں کہ نعت خوانوں اور قوالوں پر نوٹ نچھاور کر کے لوگ بزعم خویش عاشق رسو ل بن جائیں، یہ معراج عزیمت، استقامت کے جادۂ مستقیم پر گامزن رہنے والوں کو نصیب ہوتی ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اور کئی اہلِ قلم نے اس شعر کو بھی علامہ اقبال کی طرف منسوب کیا ہے:
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لاالٰہ را
یعنی جب میں زبان سے اقرار کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیوں کہ کلمۂ لا الٰہ الا اللہ کی راہ میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کی صورت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، میں ان سے بخوبی آگاہ ہوں، معبودانِ باطلہ کا صرف لفظی انکار حقیقتِ ایمان اور کمالِ ایمان کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ خداوندِ برحق کے احکام کے مقابل ان کی ترجیحات کو ٹھکرانا ہوتا ہے، جب باطل کے مقابل ایمان کے تقاضے سربلند رکھے جائیں تو دعوائے ایمان صرف اُسی صورت میں سچا ثابت ہوتا ہے، اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا: ’’(اے مسلمانو!) کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ تم (کسی آزمائش کے بغیر) یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے، حالاں کہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو متمیز نہیں فرمایا جنہوں نے کامل طریقے سے جہاد کیا اور انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے سوا کسی کو اپنا محرمِ راز نہ بنایا ہو اور اللہ تمہارے سب کاموں کی خوب خبر رکھتا ہے، (التوبہ: 16)‘‘۔
پھر جس طرح دنیاوی معاملات میں Counter Check یعنی جانبِ مخالف سے کسی چیز کی حقیقت اور فعالیت کو جانچنے کا انتظام ہوتا ہے، اسی طرح قرآن نے ایمان اور محبتِ رسول ؐ کے لیے بھی یہ کسوٹی رکھی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اے رسول ؐ!) آپ اُن لوگوں کو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھتے ہیں، خواہ وہ ان کے باپ (دادا) یا بیٹے (بیٹیاں) یا بھائی (بہنیں) یا قریبی رشتے دار ہی (کیوں نہ) ہوں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی پسندیدہ روح سے ان کی مدد فرمائی اور اللہ انہیں جنت کے ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے دریا جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، سنو! اللہ کی جماعت ہی کامیابی پانے والی ہے، (المجادلہ: 22)‘‘۔ رسول اللہ ؐ کی محبت کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے اور قرآن مجید نے محبوبیتِ باری تعالیٰ کا شِعار اتباعِ رسول اللہ ؐ کو قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اے رسول!) کہہ دیجیے! (اے اللہ کے بندو!) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری فرمانبرداری کرو (اس کے نتیجے میں) اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا، (آل عمران: 31)‘‘۔
پس رسول اللہ ؐ کی محبت کے لیے تعظیمِ رسول، اتباعِ رسول اور اطاعتِ رسول لازم ہے۔ کسی شخص کے دل میں محبتِ رسول ہے یا نہیں، اسے اطاعتِ و اتباعِ رسول کی میزان اور کسوٹی پر پرکھا جائے گا، صرف دعوائے محبتِ رسول کافی نہیں ہے۔ ہر دعویٰ دلیل چاہتا ہے اور حُبِ رسول کی ظاہری دلیل اطاعتِ رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اعراف میں رسول اللہ ؐ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’سو جو لوگ اُن پر ایمان لائے اور آپ کی تعظیم کی اور آپ کی نصرت کی اور اس نور (قرآنِ مجید) کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اُتارا گیا، بس یہ لوگ فلاح پانے والے ہیں، (الاعراف: 157)‘‘۔ یعنی رسول اللہ ؐ کی حیثیت محض ایک حاکمِ مجاز کی نہیں ہے کہ قانوناً اس کا حکم مان لیا، خواہ دل میں اس کے بارے میں ملال ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا آپ کی تعظیم و توقیر بھی لازم ہے اور آپ کے فرامین کو نہ صرف ظاہری طور پر ماننا ضروری ہے بلکہ لازم ہے کہ آپ کے کسی بھی حکم کے بارے میں دل میں نہ ملال پیدا ہو اور نہ آئینۂ دل میں بال آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’(اے رسول!) آپ کے ربّ کی قسم! (دعوائے ایمان کے باجود) یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ یہ آپس کے تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلے پر دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں (بلکہ اسے دل وجان سے قبول کریں) اور سراپا تسلیم و رضا نہ بن جائیں، (النسآء: 65)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے اہلِ ایمان! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، (النسآء: 59)‘‘۔ یعنی ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ؐ کی اطاعت لازم ہے اور پھراطاعتِ رسول کو اطاعتِ الٰہی کا معیار وکسوٹی قرار دیتے ہوئے یہ قولِ فیصل جاری فرما دیا: ’’اور جس نے رسول کی اطاعت کی، سو اس نے (درحقیقت) اللہ کی اطاعت کی، (النسآء: 80)‘‘ اور فرمایا: ’’اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی کوپا لیا، (الاحزاب: 71)‘‘۔ نبی ؐ نے فرمایا: ’’جس میں یہ تین خصلتیں ہوں، اُس نے ایمان کی حلاوت کو پالیا: (۱) یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ اُن کے ماسوا ہرچیز کے مقابلے میں سب سے زیادہ محبوب ہوں (۲) اور یہ کہ مسلمان کسی سے محبت کرے تو اس کا مُحرِّک صرف اللہ کی ذات ہونی چاہیے (۳) اور یہ کہ (اسلام قبول کرنے کے بعد) واپس کفر کی طرف لوٹنا اسے ایسا ہی ناگوار ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا، (بخاری)‘‘۔