ڈالر کی قدر میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ نے مارکیٹ کے نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا
روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں کاروبار پر اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کی جائے،چیئرمین سب کمیٹی برائے ٹیکسیشن
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کی سب کمیٹی برائے ٹیکسیشن کے چیئرمین سعود محمود نے کہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی موجودہ اکاؤنٹ خسارے کوکم کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہے جس کو ہم بخوبی سمجھتے ہیں اور کسی بھی جمہوری حکومت کے لیے یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ اضافہ ڈسکاؤنٹ ریٹس ہیں اور اس کے نتیجے میں طلب کم ہوتی ہے۔حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معیشت کودرست سمت میں لانے کے لیے یہ مشکل فیصلہ کیاتاہم سائٹ ایسوسی ایشن حکومت کے طریقہ کار سے متفق نہیں ۔ڈالر کی قدر میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ نے مارکیٹ کے نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اگرگزشتہ دنوں کی مثال لیں جب کئی بدقسمت درآمد کنندگان نے ڈالر144روپے کا خریداجبکہ اختتام پر یہ شرح 39تھی جس سے انہیں غیر ضروری نقصان ہوا۔انہوں نے کہاکہ روپے کی قدر میں دوبارہ کمی سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور یہ گمان کیاجارہاہے کہ ڈالر150سے170یا200روپے پر جاسکتا ہے۔افواہوں سے خوف پیدا ہونے سے صنعتوں کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔
سعود محمود نے کہاکہ ہماری یہ پرزور تجویز ہے کہ جس طریقہ کار سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈسکاؤنٹ ریٹ مقررکرتا ہے اسی طرح روپے کی قدر میں کمی سے بھی نمٹنا چاہیے۔اسٹیٹ بینک ڈالرکی طلب و رسد کوکنٹرول کرنے کے لیے محتاط حکمت عملی کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہ اس وقت تک برقرار رکھی جاتی ہے جب تک کہ حکمت عملی کی دوبارہ سے تشریح نہ کردی جائے جیساکہ پچھلے سال مختلف مواقعوں پر کیا گیا۔انہوں نے کہ کسی بھی روز یکایک حد کی تشریح کرنے کے بجائے ایک خاص تاریخ مقرر کردینی چاہیے جیسا مانیٹری پالیسی میں ہوتا ہے۔یہ اقدام سے نظام میں موجود بے یقینی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور اسی لحاظ سے کاروبار کی حکمت عملی وضع کرنے میں مدد گار ثابات ہوگی۔مارکیٹ میں بغیر کوئی افراتفری پھیلائے کسی مخصوص تاریخ پرہی روپے کی بے قدری مطلوبہ ایکسچینج ریٹ حاصل کرنے کا صحیح راستہ ہے ۔ہر ماہ روپے کی قدرمیں بتدریج کمی سے ڈالرائزیشن کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کی ذخیرہ اندوزی ہوگیکیونکہ اس قسم کے اقدامات ڈالرائزیشن یا ذخیرہ اندوزی کو روکنے میں زیادہ کارگر ثابت ہوں گے۔انہوں نے زور دیا کہ روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں کاروبار پر اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کی جائے ۔