وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر رجب طیب اردوان کی خصوصی دعوت پر ترکی کا دورہ کیا۔ عمران خان نے ترکی پہنچنے کے بعد عالم اسلام کے مشہور صوفی بزرگ، شاعر اور فلسفی مولانا روم کے مزار پر حاضری دی۔ بعد ازاں انہوں نے طیب اردوان کے ساتھ نماز جمعہ بھی ادا کی۔ دونوں راہنماؤں کے درمیان ون ٹو ون ملاقات کے علاوہ وفود کی سطح پر بھی بات چیت ہوئی۔ رجب طیب اردوان اور عمران خان نے مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ دونوں راہنماؤں نے مشترکہ دفاعی تعاون بڑھانے، اسلامی تشخص کو مٹانے کے خلاف اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مل جل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ترکی نے مسئلہ کشمیر اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں طیب اردوان نے عمران خان کے کرکٹ کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح انہوں نے کرکٹ کے میدان میں کامیابیاں حاصل کیں توقع ہے کہ سیاست میں بھی وہ اسی طرح کامیاب ہو ں گے۔ عمران خان نے بھی پاکستان اور ترکی کے تاریخی اور نسلوں پر محیط رشتوں کا ذکر کیا۔ عمران خان نے اپنی گفتگو میں بہت سی باتوں کے علاوہ مسئلہ کشمیر کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ بھارت کے ساتھ اس وقت سب سے اہم تنازع کشمیر ہے۔
سیاسی مبصرین نے موجودہ دورے کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ ترک حکمرانوں کے پاکستان کی سابق حکومت کے ساتھ مراسم بہت گہرے معلوم ہوتے تھے اسی سے اندازہ ہورہا تھا کہ ترکی پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی سہولت کاری کرتے ہوئے سابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مشکلات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کرے گا۔ ماضی میں یہ کردار سعودی عرب ادا کرچکا ہے۔ اس سے بھی پہلے ذوالفقار علی بھٹو جب سیاسی بحران میں گھر گئے تھے تو لیبیا، عراق اور سعودی عرب کی حکومتوں نے سہولت کاری کی کوشش کی تھی مگر یہ کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ شریف خاندان کے ساتھ قریبی تعلق کی بنا پراس بار ترکی کے فعال ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔ یوں بھی ماضی کے تجربات اور تاریخ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی داخلی کشمکش بڑھ جائے تو کوئی برادر اسلامی ملک آگے بڑھ کر راستہ نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور اگر معاملات بیرونی کشمکش جو اکثر بھارت کے ساتھ ہی چلتی رہی ہے تو ایسے میں امریکا، روس اور چین جیسا کوئی ملک متحرک ہوکر معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ چوں کہ اس وقت حکومت احتساب کے کوڑے کے ساتھ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے اور کئی سیاسی شخصیات اور گھرانوں پر اس کی زد بری طرح پڑ رہی ہے جس سے ایک سیاسی کشمکش کا ماحول بنتا جا رہا ہے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ماحول اقتصادی مشکلات میں گھرے پاکستان کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافے کا باعث ہے اس لیے بہت سے حلقوں کی طرف سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس بار کسی برادر ملک سے کوئی مسیحا آکر صورت حال کو ٹھنڈا کرے گا۔ اسی لیے وزیر اعظم عمران خان باہر جائیں یا کوئی مہمان شخصیت ملک میں آئیں تو یہ ایک بے نام سندیسے کی باتیں اور افواہیں چلنے لگتی ہیں۔
سعودی عرب، امارات، قطر اور ترکی سے اس بار بھی ایک سندیسہ متوقع ہے مگر تاحال ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ اگر ایسی کوئی فرمائش ہوتی بھی ہے تو اس کی زیادہ اہمیت نہیں کیوں کہ بین الاقوامی منظر نامے میں ریاستوں کے درمیان تعلقات ہوتے ہیں۔ افراد کے آنے جانے سے یہ تعلقات کسی حد تک متاثر تو ہوتے ہیں مگر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان اور ترکی کے تعلقات کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے جو حالاتِ زمانہ اور سرد وگرم سے بالاتر ہو کر مضبوطی کی سمت ہی آگے بڑھتے رہے ہیں۔ ان میں افغان پالیسی پر اختلاف کی معمولی سی دھند کچھ عرصہ تک چھائی رہی مگر یہ مجموعی تعلقات پر زیادہ اثرا نداز نہ ہو سکی۔ اب عمران خان کا یہ دورہ ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا باعث بنے گا دونوں راہنماؤں نے بھی رواں برس کو پاک ترکی تعلقات کا سال قرار دیا ہے۔ ترکی نے کشمیر سمیت ہر معاملے پر پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ رجب طیب اردوان نے جہاں ہر فورم پر فلسطینی عوام کو یاد رکھا وہیں انہوں نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی حمایت بھی کی۔ زلزلے ہوں یا سیلاب ترک حکومت ہمیشہ پاکستانی عوام کی مدد کے لیے تیار رہتی ہے۔ قبرص کا مسئلہ ہو یا کرد اور داعش کی دہشت گردی پاکستان نے بھی ہر مشکل گھڑی اور محاذ پر ترکی کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک ہی سمت لڑھک جانے کا جو عنصر کچھ برس سے پایا جاتا تھا اب اس پالیسی سے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔
ترکی اور سعودی عرب کے درمیان ایک کشمکش اسی طرح جاری ہے جس طرح ایران اور سعودی عرب کے درمیان چل رہی ہے مگر پاکستان اب سب کے ساتھ تعلقات کو باہمی فریم اور تناظر میں رکھ کر تیار اور ترتیب دے رہا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ ترکی، سعودی عرب اور ایران کے آپس میں کیا معاملات اور اختلافات ہیں؟ پاکستان کو اس بات سے قطع نظر ہر ملک کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دینا چاہیے بلکہ ان کے باہمی اختلافات کی شدت کو کم کرنا چاہیے۔ ماضی کی پالیسی کے جھول نے پاکستان کا دوستوں سے دور کر دیا تھا۔ اب اس غلطی کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔