ایسی تبدیلی سوچی بھی نہیں تھی

200

 

 

چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ، پارلیمنٹ کی کارکردگی پر عدلیہ کے عدم اطمینان کا اظہار اور تحریک انصاف کی حکومت اور جماعتی صفوں میں عدم یکسوئی اہم موضوعات ہیں ان پر گفتگو بھی ہوگی لیکن ابتداء وزیر اعظم کے دورہ ترکی اور حکومت کے پانچ ماہ کی کارکردگی سے کرتے ہیں۔ کارکردگی عمل کے بجائے دعوؤں تک محدود ہے خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن خاموش ہے، اندرونی محاذ، سیاسی محاذآرائی میں الجھا ہوا ہے، بلکہ یہ الجھاؤ بڑھ رہا ہے مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری اور چودھری شجاعت حسین کی ملاقات، اگرچہ یہ ملاقات حامد میر کے صاحب زادے کی شادی کی تقریب میں ہوئی، تاہم ان رابطوں کو تبدیلی کا آغاز کہا جانے لگا ہے ابھی گلے شکوے بھی ہوں گے لیکن بات آگے بڑھ جائے گی، ملک میں جنوری کے دوسرے ہفتے کے بعد ایک تبدیلی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں ہورہی ہے جس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں خود کو پنجرے سے آزاد ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عدالت عدالت ہی ہوتی ہے اگر وہ قانون اور آئین کے تحت کسی بھی نقطہ اور فل اسٹاپ کو ہٹائے بغیر کام کرنا چاہے تو پھر ہر چیف جسٹس وہی کچھ کرے گا جو قانون کہتا ہے لہٰذا پنجرہ جہاں ہے وہیں رہے گا۔ حکومت آغاز ہی سے ملکی معیشت کی زبوں حالی کا رونا رو رہی ہے یہ حالات اس لیے پیدا ہوئے کہ ہر حکومت نے غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون بنائے رکھا، کسی رکن پارلیمنٹ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ حکومت طے شدہ اصول نظر انداز کرکے کیوں قرض لے رہی ہے، یہاں موضوع سے ہٹ کر صرف ایک جملہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم تمام سابق اور منصب پر فائز صدر پاکستان، وزراء اعظم پاکستان کی پارلیمنٹ اور دیگر فورم پر کی جانے والی تقاریر کا ایک جائزہ لیں تو ہر تقریر میں یہ جملہ ملے گا کہ پاکستانی قوم بہت باصلاحیت ہے، ہماری نوجوان نسل ترقی چاہتی ہے اگر قوم باصلاحیت ہے اور ہر نوجوان بھی ترقی چاہتا ہے تو پھر رکاوٹ کہاں ہے؟ رکاوٹ ہمارے وہ مسائل ہیں جو ہمیں فرقہ واریت، لسانی گروہی، تعصبات اور سرحدوں کے پار حالات کے باعث ملے ہیں اور سچ یہ ہے کہ کسی بھی حکمران نے ان مسائل کے حل کی پائیدار کوشش نہیں کی، ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی اختیار کیے رکھی جس کے باعث یہ مسائل بڑھتے چلے گئے اور ہماری ہر حکومت برادر مسلم ممالک کے علاوہ دیگر ممالک سے امداد، قرض لے کر مے پیتی رہی اب بھی یہی ہورہا ہے۔ ایوان صدر استعمال نہ کرنا، ایوان وزیر اعظم استعمال نہ کرنا مسئلہ کا حل نہیں، مسئلہ کا حل یہ ہے کہ انہیں درست استعمال کیا جائے، یہاں قانون سازی کے لیے سوچ بچار ہو، قوم کی رہنمائی کے لیے تھنک ٹینکس کام کریں جو پارلیمنٹ کی رہنمائی بھی کریں، مسائل کا حل یہ نہیں کہ عوام کو گورنر ہاؤس اور ایوان صدر کی سیر کرادی جائے، اس سے یہ ہوگا کہ ابھی تو عوام میں ان گھروں کے لیے کشش ہے لیکن جس نے اسے تین چار بار دیکھ لیا تو اس کے لیے کشش نہیں رہے گی پھر یہ لوگ جو آج ان گھروں کی سیر پر ہی خوش ہو رہے ہیں کل اپنے حقیقی مسائل کے حل کے لیے انہی کا گریبان پکڑیں گے لہٰذا حکومت مسائل کے حل پر توجہ دے اس کے پاس وقت کتنا ہے؟ محض پانچ سال، جس میں چھ ماہ بھی گزر چکے ہیں، اور حکومت ایک انچ بھی پیش رفت نہیں کر سکی، حکومت کتنا عرصہ مذید یہ بات کرکے گزار لے گی کہ مسائل ورثے میں ملے ہیں، بھئی اگر مسائل ورثے میں ملے ہیں تو آپ کے پاس قرضوں کے علاوہ حل کیا ہے؟ وہ تو قوم کو بتایا جائے، اگر جناب بھی قرض لے کر مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر فرق کیا ہے؟ اور تبدیلی کیا ہے؟
حکومت خوش ہے کہ برادر اسلامی ملک ہماری مدد کر رہے ہیں، یہ مدد نہیں ہے بلکہ سچ اور کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم قرض کی چکی میں پس رہے ہیں، اور پستے چلے جارہے ہیں شوکت عزیز حکومت نے دھوکا دیا کہ ہم عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنا چاہتے ہیں لہٰذا انہیں بینک کاریں دے گا معمولی ایڈوانس رقم دے کر لاکھوں پاکستانیوں نے کاریں لی ہیں اب سڑکوں کا حال دیکھ لیں کیا ہے؟ ایسے بے شمار صارف ہیں کہ جن کے پاس سی این جی اور پٹرول کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن ان کے پاس کار ہے، مستقبل میں کیا ہوگا؟ ہم جن ملکوں سے قرض لے رہے ہیں انہیں واپس بھی تو کرنا ہے حکومت بجلی، گیس پٹرول مہنگا کرتی چلی جائے گی تاکہ پیسہ ملے اور قرض اتارا جاسکے اگلی حکومت بھی یہی کہے گی کہ مسائل ورثے میں ملے ہیں اور عوام ہر انتخابات میں تبدیلی اور بہتری کے نام پر تبدیلی لانے کے لیے قطاروں میں لگ کر انہیں ہی ووٹ دے رہے ہوں گے جنہیں مسلم لیگ (ن) پی پی پی اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے نام پر ووٹ دیے ہیں ریکارڈ اٹھالیں پارلیمنٹ میں وہی چہرے ہیں پیپلزپارٹی میں تو غلط اور پی ٹی آئی میں چلے گئے ہیں تو خیر ہی خیر ہے، یہ رویہ ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
حکومت خوش ہے کہ آئندہ ماہ ابوظہبی میں پاکستان اور امارات کے وزارتی کمیشن کا اجلاس ہوگا ایسے اجلاسوں میں پاکستان کے لیے بہتر فیصلوں کی امید پر ہمارے وزیر اعظم سابق وزراء اعظم کی طرح امیر ممالک کے سربراہوں کی گاڑی چلا کر انہیں ائر پورٹ سے قیام گاہ تک لاتے رہے ہیں دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کبھی کسی مالک نے اپنے ڈرائیور کے لیے خود سے بڑا گھر، بڑا بینک بیلنس بنانے کا سوچا؟ حکومت اسی پر خوش ہے کہ مالی بحران سے نکلنے کے لیے معاشی پیکیج مل رہے ہیں لیکن کسی ملک نے ہماری حقیقی مسائل کے حل کے لیے ہماری مدد نہیں کی، کشمیر ہمارا حقیقی مسئلہ ہے، یہ اس خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اقوام متحدہ کے کس ملک نے آگے بڑھ کر یہ کہا ہو کہ آئیے کہ سب سے پہلے اس پر بات کرو، دنیا یہ مسئلہ حل کرنے میں ہماری مدد کرے، تو پھر ہم دنیا کو قرض دینے کے قابل بھی ہوجائیں گے، ہم واقعی ایک باصلاحیت قوم ہیں لیکن ہم مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں پاکستان کی معیشت زوال پزیر ہے اور توانائی بحران بڑھ جانے سے مقامی کاروباری طبقہ میں کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک جانے کی سوچ پیدا ہوئی یہی حال حکومت کے احتساب کا ہے قومی احتساب بیورو نیب نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الٰہی اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے خلاف تحقیقات بند کر دی ہیں۔ نیب نے تفتیش بند کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جن 28 پلاٹس کی خریداری کا معاملہ تھا وہ چودھری برادران کے ملازم کے تھے۔ نیب نے تحقیقات بند کردیں امتیاز تو یہ برتا گیا کہ ان کے ملازم سے بھی نہیں پوچھا کہ اس کی جائداد اس کی آمدن سے زائد کیوں ہے؟ وزیر اعظم نے بار بار کہا تھا کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا لیکن چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل این آر او کیس نمٹا کر پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور ملک قیوم اور دیگر کو این آر او دے گئے ہیں یہ حکومت ایک اہم مسئلے میں الجھ کر رہ گئی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ تو لگا لیا اب عمل کیسے کیا جائے؟ اس معاملے پر حکومت میں بہت کھینچا تانی ہے اور یہ مسلسل بڑھ رہی ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، جہانگیر خان تر ین اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اراکین میں ٹھن چکی ہے کہ جنوبی پنجاب خود مختار سیکرٹریٹ کس شہر میں بنے گا یہ سب رہنماء سیکرٹریٹ اپنے اپنے علاقوں ملتان، بہاولپور اور لودھراں میں بنوانے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔