وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدالت عظمیٰ کے تحریری حکم نامے کے بغیر پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ کے نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس سے پہلے ان دونوں شخصیات کے نام ای سی ایل سے نکالے جانے کا فیصلہ متوقع تھا کیوں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار ایک عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس میں بلاول کو معصوم اور مراد علی شاہ کو منتخب وزیر اعلیٰ کہہ کر ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر تنقید کرچکے تھے۔ چیف جسٹس نے ان ریمارکس کے دوران ہی کہا تھا کہ بلاول زرداری کا کیا قصور ہے وہ تو اپنی ماں کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ تحقیقات اور حتمی فیصلے کے لیے نیب کو بھجوادی تھی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے عدالت کے ان ریمارکس اور معاملہ براہ راست نیب کو بھجوانے کو اسی طرح اپنی فتح قرار دیا گیا تھا کہ جس طرح مسلم لیگ ن نے پاناما کیس کی تحقیقاتی رپورٹ پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔
مسلم لیگ ن احتساب کے معاملے میں عدالتی چکروں میں پڑ چکی اور اب احتساب گاڑی پیپلزپارٹی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف مواد اس قدر زیادہ ہے کہ عدالتی ریمارکس اور معصومیت کے وقتی سرٹیفکیٹ حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اومنی گروپ ایک پنڈورہ باکس ہے جس سے جعلی اکاونٹس کی صورت میں روزانہ ایک ہوش ربا کہانی کی بلا باہر نکل رہی ہے۔ ان بلاؤں کو قابو کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ منظر یوں بدل جائے کہ احتساب کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ جائیں یا پھر منظر کچھ اس انداز سے بدل جائے کہ مفاہمت کے زمزمے چہار سو بلند ہوں اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں۔ ماضی میں آصف زرداری منظر بدلنے کے انتظار میں برسوں جیلوں اور جلاوطنی میں گزار چکے ہیں اور منظر بدلتے ہی کھیل مکمل بدلتا رہا ہے۔ اس بار بھی آصف زرداری گرینڈ الائنس کے نام سے کوئی ایسا ڈول ڈالنے چاہتے ہیں کہ حکومت دفاعی پوزیشن میں چلی جائے اور ملک کا منظرنامہ ہی بدل کر رہ جائے۔ نہ کوئی کیس رہے اور نہ کوئی فائل باقی رہے۔ اتحادی سیاست کے احیاء کی کوششوں کا مقصد احتساب کے تار عنکبوت کو توڑنا ہے۔ پیپلزپارٹی کی پہلی ترجیح دھمکی سے کام چلانا ہے۔ اتحادی سیاست کا مطلب خالی فوٹو سیشن اور چائے کافی کے دور چلنا نہیں ہوتا بلکہ اس سفر میں ایک مرحلے پر ڈرائنگ روم سے نکل کر سڑکوں اور کنٹینروں پر چڑھنا بھی پڑتا ہے اور پیپلزپارٹی میں اب اس کی سکت باقی نہیں رہی۔ آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کی سیاست کا کانٹا ہی نہیں کلچر بھی بدل دیا ہے۔ جیل جانے اور ماریں کھانے والے کارکن اب اس کلچر میں نایاب ہیں۔ بدلے ہوئے اس کلچر میں پنجاب میں تو پارٹی کی بنیادیں ہی ہل کر رہ گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاست کی بساط پر ایشوز بھی بدل گئے ہیں۔ اب نہ نواب زادہ نصراللہ خان ہیں نہ جنرل ضیاء الحق۔ اب نہ بحالیِ جمہوریت کا نعرہ ہے نہ آمریت سے چھٹکارے کا مقصد۔ اب سیاسی قیادت کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے اور یہ محض الزامات نہیں۔ اسی لیے آصف زرداری اس نئی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پرانے نعروں اور تدابیر کا سہارا لے رہے ہیں۔ وہ کرپشن کے الزامات کو اٹھارہویں ترمیم کی سزا، صدارتی نظام اور وحدانی طرز حکومت یعنی ون یونٹ کی باتوں کی دھند میں لپیٹنے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ صنم بھٹو کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اُتارنے کی باتیں چل پڑی تھیں مگر پھر اچانک معلوم ہوا کہ اپنے تجربات اور مشاہدات اور آپ بیتیوں کے باعث دشت سیاست کی وحشتوں سے خوف زدہ صنم بھٹو اس بھاری پتھر کو اُٹھائے بغیر واپس انگلستان سدھار گئی ہیں۔
ملک میں جو احتساب کی باتیں عشروں سے جاری ہیں۔ چند دن سے سابق صدر مرحوم فاروق لغاری کا وڈیو کلپ میڈیا میں گردش کر رہا ہے جس میں وہ منی لانڈرنگ کے طریقوں اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی جائدادوں، پھیلتے ہوئے کاروبار کی واضح طور پر نشاندہی کر رہے ہیں۔ فاروق لغاری مسٹر کلین کہلاتے تھے اور ان کی سیاست اور صدارت ان کی اسی سوچ کی بھینٹ چڑھے تھے۔ انہوں نے کرپشن کے الزامات میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تھا اور اس کے بعد مسلم لیگ ن برسر اقتدارآئی تھی مگر مسلم لیگ ن حکومت کے ساتھ بھی وہ تادیر نہ چل سکے تھے اور ایک روز خاموشی سے استعفا دے کر گھر چلے گئے تھے۔ فاروق لغاری چوں کہ دوبڑی جماعتوں کے مالی معاملات پر معترض ہوا کرتے تھے اس لیے انہیں اپنا ساتھی اور اپنے جیسا ثابت کرنے کے لیے دلدلی زمین کی فروخت کے ایک چکر میں پھنسایا گیا تھا۔
نوے کی پوری دہائی احتساب گاڑی کے آگے بڑھنے، لڑھک جانے اور ریورس گیئر لگ جانے کی کہانی سے بھرپور ہے۔ ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ملک میں گزشتہ چند دہائیوں میں بدعنوانی ہوئی ہے۔ کوئی بدعنوانی کی کہانیوں کو الف لیلوی داستان کہتا ہے تو حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا کہ منظر بدلتے ہی احتساب کی نوعیت اور میعار بدل جاتا رہا۔ ہر دور کے حکمران نے آدھا سچ بولا اور ادھورا احتساب کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے بارے میں غلط بیانی اور فریق مخالف کے بارے میں سچ بولا۔ مختلف ادوار اور مختلف اوقات میں بولا جانے والا یہی سچ اب ریفرنسز اور مقدمات کی صورت میں ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ بڑے سیاسی کھلاڑیوں کے خلاف چلنے والے مقدمات انہی کے ادوار میں قائم کیے گئے ہیں اب موجودہ دور میں پرانی فائلوں کو جھاڑ پونجھ کر دوبار قانون کے روسٹرم پر رکھ دیا گیا ہے۔ اس بار نہ تو ادھورے احتساب کی گنجائش ہے اور نہ آدھا سچ بولنے کی رسم وریت سے کام چلے گا۔ اس بار حکمرانوں کو پورا سچ اور مکمل احتساب کرنا ہوگا۔ احتساب گاڑی چل پڑی ہے اس میں کوئی ریورس گیئر نہیں۔ اس احتساب گاڑی کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دروازوں سے گزر کر پی ٹی آئی، عدلیہ، بیوروکریسی اور فوج کے سابق جرنیلوں کے دروازوں پر جاکر دستک دینا اور حال احوال معلوم کرنا ہوگا۔ مرضی اور پسند وناپسند کے فرسودہ پیمانوں اور میعارات سے کام چلانے کی کوشش احتساب کے عمل کو مشکوک بنا دے گی۔ احتساب گاڑی کو رکنا نہیں ہے بلکہ اس کی رفتار میں اضافہ مسئلے کا حل ہے۔