ایک زرداری۔۔۔ اپنی ذات پہ بھاری

155

پیپلز پارٹی کسی زمانے میں بڑے شوق سے یہ نعرے لگاتی تھی ’’ایک زرداری، سب پہ بھاری‘‘ یا ’’اب کی باری پھر زرداری‘‘ لیکن اب یہ نوبت پہنچ گئی ہے کہ زرداری خود اپنی ذات پہ بھاری ثابت ہورہے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو یہ نعرہ نہیں لگا سکتی لیکن اس کے مخالفین یہ نعرہ ضرور لگارہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اونٹ پہاڑ تلے آیا ہے اور زرداری رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، ورنہ ان کی کرامات کا تو یہ عالم تھا کہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے باوجود بے قصور بنے رہتے تھے اور عدالتیں بھی ان پر کوئی الزام ثابت کرنے میں ناکام رہتی تھیں۔ اب کی دفعہ جعلی اکاؤنٹس اور ان کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا قصہ اُٹھا تو چیف جسٹس نے اس کیس کی براہِ راست سماعت کرنے کے بجائے کیس کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنادی، اس نے تفصیلی چھان بین کے بعد جو رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے اس نے لوگوں کے ہوش اُڑا دیے ہیں۔ جعلی اور بے نامی اکاؤنٹس کا ’’کھُرا‘‘ ایک کاروباری ادارے اومنی گروپ سے جا کر ملتا ہے۔ جس کی سرپرستی آصف زرداری اور ان کی بہن محترمہ فریال تالپور کو حاصل تھی اور اس کے ذریعے لوٹ مار کے اربوں روپے بیرون ملک بھیجے جارہے تھے۔ اس کھیل میں زرداری کی زیر نگرانی سندھ حکومت پوری طرح ملوث تھی اور سارا کام سرکاری سطح پر وزیراعلیٰ کے دستخطوں سے ہورہا تھا۔ جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ سے سفارش کی ہے کہ زرداری اور فریال تالپور کے تمام بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد کردیے جائیں اور انہیں اس سے فائدہ اُٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔ عدالت نے اس کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے نیب کے سپرد کردیا ہے اور نیب سے کہا ہے کہ وہ دو ماہ میں تفتیش کرکے ریفرنس دائر کرے۔ نیب کیا کرتا ہے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ بقول شاعر
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!!!
لیکن زرداری ’’کچھ نہ کچھ‘‘ ہونے سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان پر جعل سازی کے ذریعے ملک کو لوٹنے کا محض الزام نہیں ٹھوس ثبوت موجود ہے اور اب کی دفعہ ان کی بچت مشکل بلکہ ناممکن نظر آرہی ہے۔ وہ زمانے گئے جب وہ ہنستے کھیلتے جیل چلے جاتے تھے اور اپنی لوٹی ہوئی دولت پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ سیاست میں ان کی حریف صرف مسلم لیگ (ن) تھی اور درپردہ وہ اس سے بنا کر رکھنے کے قائل تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کا گورکھ دھندا تو 2015ء ہی میں ظاہر ہوگیا تھا اور ایف آئی اے نے اس کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ وزارت داخلہ میں پیش کردی تھی۔ اُس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، میاں نواز شریف وزیراعظم اور چودھری نثار وزیر داخلہ تھے۔ رپورٹ وزیرداخلہ کو موصول ہوئی تو انہوں نے اس پر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے وزیراعظم نواز شریف کو پیش کردی۔ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس تھا اور ملزم تھے، پیپلز پارٹی کے قائد جناب آصف زرداری لیکن وہ تو میاں نواز شریف کے ’’محسن‘‘ تھے، انہوں نے عمران خان کے دھرنے سے نواز شریف کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اگر پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں حکومت کی پشت پر نہ کھڑی ہوتی تو امکان تھا کہ ’’امپائر‘‘ کی اُنگلی کھڑی ہوجاتی اور عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر وکٹری کا نشان لہرانے لگتے لیکن زرداری نے پارلیمنٹ میں نواز حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرکے یہ ڈراما ناکام بنادیا تھا اور کپتان کو بہ حسرت و یاس کنٹینر سے نیچے اُترنا پڑا تھا۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا ’’احسان‘‘ نہ تھا جسے نواز شریف نظر انداز کردیتے۔ چناں چہ جب زرداری اور اومنی گروپ کے خلاف جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کی رپورٹ ان کے حضور پیش ہوئی تو انہوں نے اسے اپنی میز پر پڑی ہوئی فائلوں کے نیچے دبادیا اور معاملہ ’’رفت گزشت‘‘ ہوگیا۔ وفاقی حکومت کی چشم پوشی سے زرداری کا کالا دھند پھیلتا چلا گیا اور اومنی گروپ انڈے بچے دینے لگا۔
2018ء کے انتخابات میں جیسا کہ توقع کی جارہی تھی تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری لیکن اسے حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت بھی حاصل نہ تھی۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کو دوسری اور پیپلز پارٹی کو تیسری پوزیشن حاصل تھی، جب کہ بہت سے آزاد ارکان اور چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپ بھی کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ عمران خان کے لیے حکومت بنانے کا سب سے آسان راستہ یہ تھا کہ وہ پیپلز پارٹی سے اتحاد کرلیتے، زرداری ان سے یہی توقع لگائے بیٹھے تھے اور ان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے تھے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) بھی ان کے ساتھ اشتراک و تعاون کی خواہاں تھی لیکن زرداری نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا، وہ سمجھ گئے تھے کہ مسلم لیگ (ن) اور شریف برادران کا کھیل ختم ہوچکا ہے، اب تخت اقتدار پر بیٹھنے کی باری عمران خان کی ہے اور تمام غیبی طاقتیں اس کی پشت پر ہیں۔ انہوں نے اسپیکر کے انتخاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہیں دیا اور پوری کوشش کی کہ عمران خان کے ساتھ ان کے معاملات طے ہوجائیں۔ پاکستان کی بے اصولی اور اخلاق سے عاری سیاست میں عمران خان کے لیے بھی سہولت اسی میں تھی کہ وہ زرداری کا ہاتھ تھام لیتے اور حکومت سازی کے لیے چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں کی خوشامد سے بچ جاتے۔ وہ اگرچہ یوٹرن لینے کے بادشاہ ہیں لیکن انہوں نے اتنا بڑا یوٹرن لینا گوارا نہ کیا اور زرداری کے تعاون کے بغیر آزاد ارکان اور چھوٹے سیاسی گروپوں کے اشتراک سے ایک غیر مستحکم حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ اگر وہ خدانخواستہ پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا لیتے تو زرداری کو حکومت کا شیلٹر میسر آجاتا اور کوئی ان کے کالے کاروبار کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اب زرداری خود اپنے ہی بوجھ تلے دب کر رہ رہے ہیں اور کوئی دن جاتا ہے کہ وہ نشان عبرت بن جائیں گے، یہ سب قدرت کے کھیل ہیں اس میں انسانی ہاتھ کا کوئی عمل دخل نہیں۔