جوڈیشیل ایکٹوازم، کیا اور کیوں؟

168

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انہوں نے جوڈیشیل ایکٹوازم کی بنیاد نیک نیتی سے رکھی ۔جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ میں اپنے اعزاز میں دیے گئے الوداعی عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ عوام کو وہ انصاف نہیں مل رہا جو پہلے ملا کرتا تھا ۔ جوڈیشیل ایکٹوازم کی اصل بنیاد تو ان سے قبل کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے رکھی تھی تاہم اسے موجودہ بلندی تک پہنچانے کا سہرا موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے سر جاتا ہے ۔ پہلے دن سے ہی سنجیدہ حلقوں میں جوڈیشیل ایکٹوازم متنازع ہے ۔ جوڈیشیل ایکٹو ازم کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ اپنے دیے گئے دائرہ کار سے باہر نکل گئی ہے یا دیگر الفاظ میں جارحانہ اسلوب اختیار کرچکی ہے ۔ اس طرز کو اس وقت قابل تحسین قرار دیا جاسکتا ہے جب عدلیہ کے پاس سائلین موجود نہ ہوں اور وہ خود ہی اپنے لیے کوئی مصروفیت نکالے ۔ اس وقت ضرورت تو اس بات کی ہے کہ عدالتوں میں موجود کیسز کو بروقت نمٹانے کی بات کی جاتی اور انصاف کا حصول آسان ، سادہ و سہل اور سستا بنایا جاتا ۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ دس پندرہ برس پرانے مقدمے تو عام سی بات ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک سو سالہ مقدمہ بھی فیصل ہوا ۔ اس کا فیصلہ بھی کیا ہونا تھا ۔ یہ جائیداد کا مقدمہ تھا جو اس عرصے میں جائیداد کی قیمت میں اضافے کی بناء پر طرفین نے خوشی خوشی خود ہی طے کرلیا ورنہ تو یہ عدالت میں کسی فیصلے کے بغیر ہی پڑا ہوا تھا ۔ یہ ایک انتہائی آسان سی بات ہے جو عدلیہ یا تو سمجھنے کو تیار نہیں یا پھر اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں کہ اگر عدالت سے انصاف ملنے لگے تو معاشرے سے ناانصافی از خود ختم ہوجائے گی اورکسی بھی جوڈیشیل ایکٹو ازم کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔ سرطان کوئی الگ سے بیماری نہیں ہے بلکہ جسم کے کسی بھی حصے کے صحت مند سیل معتدل تعداد سے زاید ہوجائیں تو اسے سرطان کہا جاتا ہے جو کہ زندگی کے لیے قاتل ثابت ہوتا ہے ۔ یعنی کوئی بھی صحت مند عمل اگر اعتدال سے آگے بڑھ جائے تو وہ معاشرے کے لیے خطرناک ہوجاتا ہے ۔ اس پر جوڈیشیل ایکٹوازم کو بھی منطبق کیا جاسکتا ہے ۔ معاشرے میں ہر طرف بے انصافی کا دور دورہ ہے ہی اس لیے کہ عدالت سے کسی بھی سطح پر انصاف مہیا نہیں ہورہا ہے ۔ جوڈیشیل ایکٹو ازم کے بجائے چیف صاحب اگر کوئی ایسا نظام بناتے کہ انصاف کی فراہمی فوری اور سستی ہوتی تو یقیناًیہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہوتا ۔ عدلیہ سے منسلک ہونے سے قبل چیف صاحب نے وکالت بھی کی ہوگی ۔ انہیں سب پتا ہے کہ عدالت میں نائب قاصد سے لے کر جج تک کس طرح کرپشن کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ جب تک کرنسی کے پہیے نہ لگائے جائیں ، اس وقت تک فائل ہی ایک میز سے دوسری میز تک حرکت میں نہیں آتی ۔ برسوں کیس کس طرح لٹکے رہتے ہیں یہ سب ٹھیک کرنے کے لیے انہیں کسی اور اطلاع کی ضرورت نہیں تھی ۔ اسی طرح اگر عدالت کے تمام ملازمین اور ججوں کے اثاثے ہی چیک ہوجائیں اور ان کا معیار زندگی ہی چیک کرلیا جائے ، تو بہت ساری بیماریوں کا علاج ممکن تھا ۔ بدقسمتی سے چیف صاحب کی توجہ اس طرف نہیں رہی ۔ چیف صاحب نے کہا ہے کہ انہوں نے کسی کے کام میں مداخلت نہیں کی ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ اسپتال گئے تو یہ کہنے گئے کہ وہاں علاج کے لیے وسائل میسر نہیں ۔ چیف صاحب اگر بدعنوان اور سفارشی حکام کے خلاف فیصلے ہوجاتے تو اسپتال کا انتظام از خود درست ہوچکا ہوتا ۔ آنے والے چیف جسٹس سے ہم یہی گزارش کرتے ہیں کہ جناب عدلیہ کو فعال کریں ، انصاف کو آسان اور سہل کریں ۔ جہاں آپ ڈاکٹروں کی فیسوں کی بات کرتے ہیں وہیں پر وکلاء کی فیسوں پر بھی کوئی حد لگائیں ۔ وکلاء کی جانب سے کی جانے والی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کو بھی لگام دیں ۔ یقین کریں کہ اگر ایسا ہوگیا تو سب کچھ خودکار عمل کے تحت درست ہوجائے گا ۔