مریضوں کے مفاد میں دوائیں مہنگی!

384

پاکستان میں دواؤں کی قیمت میں 15 فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ جان بچانے والی دواؤں کی قیمتیں بھی 9 فیصد تک بڑھ گئیں۔ ترجمان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے اپنے اعلامیہ میں فرمایا ہے کہ ’’مریضوں اور ملک کے وسیع تر مفاد میں قیمتیں بڑھانے کا قدم اٹھایا گیا ہے، اس کے باوجود بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر جو قیمتیں ہیں، پاکستان میں ان سے کم رہیں گی۔‘‘ پاکستان میں ایسے تمام اقدامات ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کیے جاتے رہے ہیں۔ سابقہ حکومتیں بھی یہی دعوتے کرتی ہوئی چلی گئیں اور اب جو عوام کی ہمدرد و غم گسار حکومت آئی ہے وہ بھی یہی منتر پڑھ رہی ہے۔ اس کو زخموں پر نمک نہیں تیزاب چھڑکنے کا عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر مریضوں اور ملک کا وسیع تر مفاد دواؤں کی قیمتیں بڑھانے میں ہے تو اسے وسیع ترین کرنا چاہیے اور صرف 15 فیصد تک پر اکتفا نہ کیا جائے۔ دنیا بھر میں جان بچانے والی دواؤں کی قیمتیں بڑھنے نہیں دی جاتیں تاکہ غریب ترین مریض بھی جان بچا سکیں۔ کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اب بھی قیمتیں نسبتاً کم ہیں۔ بین الاقوامی صورتحال کا علم تو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ہوگا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں دواؤں کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں نہ صرف کم ہیں بلکہ معیار بھی بہتر ہے اسی لیے کئی دوائیں اسمگل ہو کر آتی ہیں۔ پاکستان کے بارے میں معروف ہے کہ یہاں بیشتر دوائیں دو نمبر کی ہیں چنانچہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ نام نہاد ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس جعل سازی پر کوئی توجہ نہیں دیتا کیونکہ شاید اس کا کام قیمتیں بڑھانا ہے۔ دواؤں کی قیمت میں اضافے کا الزام بھی سابق حکومتوں پر آجائے گا اور اس بار بھی کہہ دیا جائے گا کہ سابق حکومتیں ملک کو لوٹ کر کھا گئیں اور ورثے میں اقتدار کے سوا کچھ نہیں چھوڑا چنانچہ خسارہ پورا کرنے کے لیے ہر شے کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ راگ اگلے 5 سال تک الاپا جائے گا۔ اس بار بھی یہی کہا گیا ہے کہ ڈالر کی قدر میں 30 فیصد اضافے کے بعد ادویات میں استعمال ہونے والے خام مالک اور پیکنگ مٹیریل کے نرخوں میں اضافہ ہوا اور گیس و بجلی مہنگی ہونے سے بھی اس صنعت پر اضافی بوجھ پڑا۔ چنانچہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے دوا ساز اداروں کا مطالبہ مان لیا۔ اب اگر مریض دوائیں نہ ملنے سے مرتے ہیں تو مریں، کسی کی بلا سے کیونکہ یہ تو ان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ میڈیکل اسٹوروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ کچھ دواؤں کی قیمتیں تو کمپنیوں نے پہلے ہی بڑھا دی تھیں۔ گزشتہ کئی دن سے یہ خبریں آرہی تھیں کہ کئی دوائیں مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں ہیں مگر سرکاری نمائندے یہ تاویلات پیش کررہے تھے کہ اگر کسی ایک برانڈ کی دوا نہیں مل رہی تو کسی دوسرے برانڈ کی وہی دوا لے لی جائے، ڈاکٹر بھی یہ تجویز کر دیں گے۔ لیکن ہر دوا میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے اور مریض کو کسی اور برانڈ کی دوا راس نہیں آتی۔ اطلاعات کے مطابق دوا ساز کمپنیاں تو 40 فیصد اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ تاہم مہنگائی کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان کو دور کرنے کی ذمے داری موجودہ حکومت پر ہے۔ وہ کب تک ماضی کا رونا روتی رہے گی۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو یا گیس کی قیمت کی بے مثال گرانی اور بجلی کی مہنگائی، یہ سب تو نئی حکومت کے دور میں ہوا ہے۔ گیس نہ ملنے سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور روپے کی قدر گرانے کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔ کہا جارہا ہے کہ امریکا میں بھی تو رواں ماہ میں 490 سے زاید ادویات کے نرخ دگنے ہوگئے۔ امریکا و یورپ کی مثالیں دینے والے حکومتوں کی طرف سے دی گئی دیگر سہولتوں کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اب 23 جنوری کو منی بجٹ آرہا ہے جو مہنگائی کا نیا طوفان لائے گا لیکن وہ بھی عظیم تر مفاد میں ہوگا۔